تربیت کے پانچ اصول
تربیت کے پانچ اصول
ترجمہ: فرمان علی شگری
جوان پانچ تربیتی اصول کا محتاج ہے اور حضرت علی اکبر علیہ السلام ان پانچ تربیتی اصول کا مظہر ہیں۔
1: دینی تربیت: خداوند متعال کی شناخت، خدا اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ رابطے کی اہمیت کے حوالے سے جوانوں کو تعلیم دینی چاہیے. پیغمبر اکرم (ص) اس موضوع کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
دینی تربیت کا یہ اصل اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ماں باپ دینی معاملات میں اس کے مخالف ہوجائیں، تب بھی ان کی باتوں کو نہیں ماننا چاہیے.
معاشرے میں بعض افراد کہتے ہیں کہ نماز ایک تکراری عمل ہے اور روزانہ 5مرتبہ اس کا تکرار ہونا انسان کو تھکا دیتا ہے. ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کی زندگی ہی تکراری عمل سے عبارت ہے روزانہ کی بنیاد پر کھانا کھانا، کھانا پکانا، سونا اور سکول جانا و... یہ سب اعمال تکراری ہیں اور تکرار سے ہی زندگی کا پہیہ چلتا ہے۔
2: اخلاقی تربیت: یعنی بچوں کو اخلاقی مسائل سے آگاہ کرنا، جیسے سچائی و صداقت، جھوٹ اور غیبت سے اجتناب کرنابچوں کی تربیت ایسی نہیں ہوتی جو ہم چاہتے ہیں بلکہ جس طرح ہم ہیں ایسے ہی بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔
3: سماجی اور اجتماعی تربیت: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق عصر حاضر میں جوانوں میں گوشہ نشینی اور گوشہ گیری(Introversion) کا رجحان روز بروز بڑھتا جارہا ہے یہ ایک سماجی مشکل ہے اور مستقبل میں جوانوں کی شادی کے بعد مزید مشکل سے دوچار ہوجائیں گے۔
انفاق، صدقہ دینا اور عام المنفعہ کاموں میں حصہ لینا، صلہ ارحام، بیماروں کی عیادت و... جوانوں اور بچوں کے سماجی اور اجتماعی رشد ونما کے عوامل میں سے ہیں۔
4علمی تربیت: یہ تربیت کے ان اصولوں میں سے ہے جس کی رعایت ہونی چاہیے علم میں بھی ترجیحی پہلو کو مد نظر رکھنا ہوگا جوانوں کو ایسی تعلیم دینی چاہیے جو ان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ شبہہ سے نہیں ڈرنا چاہیے بلکہ شبہہ میں رہنے سے ڈرنا چاہیے جوانوں کو ہمیشہ ایک عالم دین سے رابطہ میں رہنا چاہیے۔
5سیاسی تربیت: ولایت فقیہ کا نظام ایک سیاسی نظام نہیں ہے بلکہ ایک دینی نظام ہے اور امام خمینی (رہ) نے ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جوانوں کا اس موضوع سے آگاہ ہونا ضروری ہے. دین داری سیاست سے جدا نہیں ہے کیونکہ ہمارے سارے ائمہ اور معصومین سیاسی ہونے کی وجہ سے شہید ہوگئے ہیں۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام دینی، اخلاقی، اجتماعی، علمی و سیاسی تربیت کے مظہر اور آئینہ دار تھے۔
تبصرہ
دکتر حسن خان اماچہ کا تبصرہ۔
اچھی تربیت کے سارے پہلو صحیح لیکن کربلا میں انکا کردار۔ اپنے زمانے کے امام کی نصرت ہے ۔جو جوانوں کے لئے نمونہ عمل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں امام نہ ہو ۔امام باطل سے بر سر پیکار نہ ہو ۔اور امام کو نصرت کی ضرورت نہ ہو ۔ امام موجودہ اور پردہ غیب میں ہے۔ باطل خود امام کے مشن سے برسرپیکار ہے ۔امام نصرت کے منتظر ہیں ان سب کی موجودگی میں جوانوں کی اصل اور اہم ذمہ داری کیا بنتی ہے؟