ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

اغراض و مقاصد
علاقے میں دینیات سینٹرز کاقیام،مختلف شہروں، قصبوں میں لائبری قائم کرنا، سکولوں کے ایام تعطیلات میں دین شناسی شارٹ کورس کا انعقاد، سکول وکالجز میں معارف اسلامی کے لیے اساتید کا تقرر، اساتیدکی تربیت کرنا تاکہ وہ بہتر انداز میں بچوں کی تربیت کرسکے، مغربی تہزیب جو سکولوں میں رائج کرنے کی انتھک کوششیں ہورہی ہیں ان کا مقابلہ کرنا۔ اور اسلامی تہذیب معاشرہ و سکول و کالجوں میں رائج کرنا۔
ہم سب پر امر باالمعروف ونہی از منکر واجب ہے۔
آپ تمام سے دست بستہ عرض ہے کہ اس کارخیر میں ہمارے ساتھ تعاون فرماکر ہدف تک پہنچنے میں ہمارے ساتھ دیں

طبقه بندی موضوعی

تربیت کے پانچ اصول
 

ترجمہ: فرمان علی شگری

 

تربیت

جوان پانچ تربیتی اصول کا محتاج ہے اور حضرت علی اکبر علیہ السلام ان پانچ تربیتی اصول کا مظہر ہیں۔

1: دینی تربیت: خداوند متعال کی شناخت، خدا اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ رابطے کی اہمیت کے حوالے سے جوانوں کو تعلیم دینی چاہیے. پیغمبر اکرم (ص) اس موضوع کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
دینی تربیت کا یہ اصل اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ماں باپ دینی معاملات میں اس کے مخالف ہوجائیں، تب بھی ان کی باتوں کو نہیں ماننا چاہیے
معاشرے میں بعض افراد کہتے ہیں کہ نماز ایک تکراری عمل ہے اور روزانہ 5مرتبہ اس کا تکرار ہونا انسان کو تھکا دیتا ہے. ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کی زندگی ہی تکراری عمل سے عبارت ہے  روزانہ کی بنیاد پر کھانا کھانا، کھانا پکانا، سونا اور سکول جانا و... یہ سب اعمال تکراری ہیں اور تکرار سے ہی زندگی کا  پہیہ چلتا ہے۔
2: اخلاقی تربیت: یعنی بچوں کو اخلاقی مسائل سے آگاہ کرنا، جیسے سچائی و صداقت، جھوٹ اور غیبت سے اجتناب کرنابچوں کی تربیت ایسی نہیں ہوتی جو ہم چاہتے ہیں بلکہ جس طرح ہم ہیں ایسے ہی بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔

 3: سماجی اور اجتماعی تربیت: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق عصر حاضر میں جوانوں میں گوشہ نشینی اور گوشہ گیری(Introversion)  کا رجحان روز بروز بڑھتا جارہا ہے یہ ایک سماجی مشکل ہے اور مستقبل میں جوانوں کی شادی کے بعد مزید مشکل سے دوچار ہوجائیں گے۔
 انفاق، صدقہ دینا اور عام المنفعہ کاموں میں حصہ لینا، صلہ ارحام، بیماروں کی عیادت و... جوانوں اور بچوں کے سماجی اور اجتماعی رشد ونما کے عوامل میں سے ہیں۔
4علمی تربیت: یہ تربیت کے ان اصولوں میں سے ہے جس کی رعایت ہونی چاہیے علم میں بھی ترجیحی پہلو کو مد نظر رکھنا ہوگا جوانوں کو ایسی تعلیم دینی چاہیے جو ان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ شبہہ سے نہیں ڈرنا چاہیے بلکہ شبہہ میں رہنے سے ڈرنا چاہیے جوانوں کو ہمیشہ ایک عالم دین سے رابطہ میں رہنا چاہیے۔

5سیاسی تربیت: ولایت فقیہ کا نظام ایک سیاسی نظام نہیں ہے بلکہ ایک دینی نظام ہے اور امام خمینی (رہ) نے ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جوانوں کا اس موضوع سے آگاہ ہونا ضروری ہے. دین داری  سیاست سے جدا نہیں ہے کیونکہ ہمارے سارے ائمہ اور معصومین سیاسی ہونے کی وجہ سے شہید ہوگئے ہیں۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام دینی، اخلاقی، اجتماعی، علمی و سیاسی تربیت کے مظہر اور آئینہ دار تھے۔

تبصرہ

دکتر حسن خان اماچہ کا تبصرہ۔

اچھی تربیت کے سارے پہلو صحیح   لیکن کربلا میں انکا کردار۔ اپنے زمانے کے امام کی نصرت ہے ۔جو جوانوں کے لئے نمونہ عمل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں امام نہ ہو ۔امام باطل سے بر سر پیکار نہ ہو ۔اور امام کو نصرت کی ضرورت  نہ ہو ۔  امام موجودہ اور پردہ غیب میں ہے۔ باطل خود امام کے مشن سے برسرپیکار ہے ۔امام نصرت کے منتظر ہیں ان سب کی موجودگی میں جوانوں کی اصل اور اہم ذمہ داری کیا بنتی ہے؟

 

۲۳ نوامبر ۲۰ ، ۱۴:۲۵
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

 

اسلامی نظام تعلیم

از نظر امام خمینی ؒ

تحریر: محمد ایوب مطہری شگری

اگر سکول ،کالج و یونیورسٹیوں کے اساتید و پروفیسرز حضرات کی توجہ صرف اسی بات پر ہو کہ وہ صرف سبق پڑھائیں ، لیکچر دیں اور طالب علموں کو صرف علم دے دیں تو چنانچہ اگر اس تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہیں کی جائے اور معنوی اللہ و ہدایت کا سامان نہ ہو تو یہ جان لیں کہ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد برائی ہی پھیلائیں گے ۔

اس وقت ہمارے سکول و کالجوں سے اگردرس معنویت دی جاتی توآج ہم اور ہمارے بچے علم ودانش کے قافلے سے اتنے پیچھے نہ ہوتے۔اگر مقصد  فقط تعلیم دینا ہی ہواور معنوی تربیت نہ ہو تو سکول و کالجوں سے جو بچے نکلیں گےوہ خرابی ہی پیداکریں گے ، دینی مدارس بھی اسی طرح ہیں ۔اگر دینی مدارس اور حوزہ ہاے علمیہ میں طالب علموں کی تہذیب نفس کے لیے اقدامات نہ کیے جائیں ، ان کے اخلاق کو بہتر بنانے کےلئے کام نہ کیا جائے اور معنوی تعلیم کا کوئی انتظام نہ ہو ، یعنی صرف تعلیم دی جائے اور صرف علم سے ہی ان کو مالا مال کیا جاے تو وہاں سے بھی فارغ التحصیل افراد دنیا کو ہلاکت و نابودی سے دوچار کریں گے ۔ پس یہ کہنا چاہیے کہ یہ دو  رکن یعنی تعلیم و تربیت ہمیشہ سے ساتھ ساتھ ہیں اور اگر ایک معاشرے میں، ایک ادارے میں یا ایک مدرسہ ، سکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں ان کے طالب علموں کے لیے ان دونوں ارکان سے ایک ساتھ استتفادہ کیا جائے تو اس وقت ہم یونیورسٹی، دینی مدارس اور معاشرے کے تمام افراد سے ان کی ہر قسم کی علممی سطح اور ان کے تمام تر مراتب علمیہ کے ساتھ ہر وقت مستفیض ہوسکیں گے۔

جو چیز اہم ہے وہ زمانہ طفولیت سے ہی ان نونہالوں کی روح کی پرورش کرنا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ان کی روحانی تربیت کی جائے اور یہ علمی زیور سے مالاما ل بھی ہوں ۔ علم اگر ایک آلودہ قلب اور بُرے خیالات کےحامل ذہن میں اخلاق کا لبادہ اوڑھ کر وارد ہو تو اس کا ضرر نقصان نادانی اور سہو کے نتیجے میں ہونے والے ضرر سے زیادہ ہے ۔صحیح ہے کہ نادانی ایک بڑی چیز کا فقدان ہے لیکن اس میں نہ تو کسی کو نقصان پہنچایا جاتاہے اور نہ ہی کسی کو نابود کیا جاتاہے۔ بر خلاف اس چیز کے کہ علم ہو لیکن اخلاق و تہذیب اور انسانی و خدائی خیال و توجہ کے بغیر ، یہ چیز ہے جوانسان کو ہلاکت سے دو چار کرتی ہے۔ انبیاء ؑجس قدر تربیت کےلئے زور دیتے تھے اور لوگوں کو مہذب اور تہذیب یافتہ بنانے کے لیے جتنی کوششیں کرتے تھے اتنی سعی علم کےلیے نہیں کرتے تھے ۔ تہذیب نفس کےلیے زیادہ کوششیں اسی لیے کی جاتی ہیں کہ اس کا فائدہ اور نفع زیادہ ہے ۔

البتہ علم بھی ایک ایسی چیز ہےکہ جو سب کی توجہ کا مرکز رہی ہے لیکن علم کو تربیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ وہ دو پر ہیں کہ اگر کوئی قوم چاہے کہ سعادت و خوش بختی کی طرف  پرواز کرے تو اسے انہی دو پروں ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے ذریعے ہی پرواز کرنی چاہیے ۔ اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو سعادت کی طرف پروازنا ممکن ہے۔ (صحیفہ امام خمینی ؒ)

انسانی تربیت کی ضرورت:

عدم اصلاح کی صورت میں نابودی:

اگر آپ نے اپنی اصلاح نہیں کی توتاریک مستقبل اورسیاہ دنوں کی آپ کےلیے پیشنگوئی کررہاہوں ۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو اخلاقی طور پر مہذب نہیں بنایا، اگر آپ نےاپنی زندگی اور درس و تعلیم میں نظم و ضبط کو حاکم نہیں بنایا تو آنے والے وقت میں آپ خدا نخواستہ نابود و فناہوجائیں گے۔

تربیت کا صرف انسان سے مختص ہونا۔

اس عالم ہستی سے تعلق رکھنے والے موجودات میں صرف انسان ہی کو کچھ خصوصیات حاصل ہیں کہ جو دوسرے تمام موجودات کو حاصل نہیں ۔ ایک خصوصیت اس کی باطنی دنیا ہے۔ دوسری  خصوصیت اس کا عقلمند ہوناہے اور اس کی عقل سے بڑھ کر بھی اس کی ایک اور خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ اس میں تمام کمالات بالقوہ ہیں انسان کی فطرت میں ان تمام کمالات کی طرف راہنمائی موجود ہے کہ جن کی ایک انسان کو ضرورت پڑتی ہے یہ ان تمام کمالات کا بالقوہ ہونا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان ان کمالات کو مرتبہ بالقوہ سے مرتبہ بالفعل تک پہنچانے کےلیے کوشش اور جد جہد کرے۔       (تعلیم و تربیت ،ص ۲۳)

انسان کی فطرت میں اس بات کی صلاحیت ہے کہ انسان اس فطرت کے سائے میں اس عالم ہستی کی سیر کرے اور اس مقام تک پہنچے کہ جہاں ہمارا وہم و گمان بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ لیکن ان مدارج کو طے کرنے کےلیے انسان تربیت کا محتاج ہے۔ (صحیفہ امام خمینی  ؒ)

نفس کو مہار نہ کرنے کے نتائج۔

اگر ہم صراط مستقیم پر قدم نہ اٹھائیں ، اپنے نفس اور معلومات کو مہار نہ کریں اور اس راہ میں اپنی نفسانی خواہشات کا  گلہ نہ گھونٹیں تو علم جتنا بھی زیادہ ہوتاجاے گا انسان، انسانیت سے دور چلا جائےگا  اورایسی صورت میں انسان کا صراط مستقیم کی طرف لوٹنا مشکل تر ہوجائے گا۔

انبیاء ؑ کے ذریعے انسانی تربیت کی ضرورت۔

یہ طاغوتی اور شیطانی وجود اگر انبیاء کےسائےتلے پروان نہ چڑے اور ان کی تعلیم و تربیت کے مطابق زندگی نہ گزارے تو اس شخص میں اور اس شخص میں کوئی فرق نہیں کہ جو عملا دنیا کو لوٹ  رہا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ یہ لوٹ مار اس کے مکان سے باہر ہے اور عملالوٹ رہا ہے۔                               (صحیفہ امام خمینی  ؒ)

نوجوانوں کی تربیت لازمی امر ہے ۔

پہلا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اچھے بن جائیں ۔ یہ نوجوان جو مستقبل میں اس مملکت کے نگہبان اور اسے چلانے والے ہیں تولازمی ہے کہ ان کی صحیح تربیت اور اصلاح کی جائے ۔  (صحیفہ امام)

انسان کا بے لگا ہونا۔

انسان پہلے ایک حیوان  ہے، بلکہ حیوانات سےزیادہ بدتر ۔ اگر انسان اپنی خواہشات نفسانی کےسائے میں پروان چڑھے اور یونہی آگے بڑھے تودرندگی ، شہوت اور شیطنت کوئی حیوان انسان کے مثل نہیں ہوسکتا ہے ۔ دوسرے حیوانات کی شیطنت، شہوت اور درندگی محدود ہے۔ انسان ایک ایسا موجود ہے جو اپنی خلقت کے اعتبار سے دیگر تمام موجودات سے بالاتر مقام کا حامل ہے لیکن دوسری طرف اس کی شہوت، غیض و غضب اور شیطنت ہے کہ ان کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ فرض کریں ایک انسان اگر ایک گھر کا مالک بن جائے تووہ دوسرے گھر کی تلاش میں چل پڑتا ہے ۔ اگر پوری دنیا اس کے قبضہ قدرت میں ہو تب بھی وہ اس فکر میں ہے کہ چاند پر بھی قبضہ کرلے اور مریخ پربھی تسلط جمالے۔ نہ اس کی ہوس کی کوئی حد ہے اور نہ اس کی شہوت کہ ایک مقام پر جاکر سیر ہوجائے۔ ایک مقام مل جائے تو دوسرے مقامات کی تلاش میں، دس مرتبے مل جائیں تو سو کی تلاش میں سرگردان رہتا ہے اور نہ اس کی لالچ کا دریا آرام پانے والاہے کہ ایک ملک ، دو ملک اور دس ممالک پر قانع ہوجائے ۔ انبیاء ؑاسی لیے آئے ہیں کہ اس کی خواہشات کو محدود کریں، یعنی اسے لگام دیں ۔ یہ بے لگام حیوان کسی بھی محدودیت کا قائل نہیں ہے۔

انبیاءؑ اگر اسے آزاد چھوڑدیں اور اس کی تریبت نہ کریں تو اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ تمام چیزوں کو اپنے لیے ہی چاہتا ہے اور تمام چیزوں کو اپنے مقصد کےلئے قربان کرنےسے بھی دریغ نہیں کرتا۔ انبیاء ؑ کی آمد کا مقصد یہی کہ اس بے لگام حیوان کو لگام دیں اور قوانین کے زیرسایہ لے آئیں اور جب یہ قابو میں آجائے تو اسے راہ ہدایت دکھائیں تاکہ اس کی صحیح تربیت ہوسکے ایک ایسی تربیت کہ جس کے ذریعہ سے وہ اپنے ممکنہ کمالات کی آخری منزل کو پاسکے کہ جو ہمیشہ اس کے لئے سعادت ہے۔(صحیفہ امام خمینی  ؒ)

اختلاف ونزاع کی وجہ

اگر ہم اپنی تربیت کرلیں توہماری تمام مشکلات دورہوجائیں گی۔ہماری تمام تر مشکلات اسی لیے ہیں کہ ہماری تربیت نہیں ہوئی ہے ۔ اور ہم خدا کی پسندیدہ تربیت اور اسلام کے پرچم تلے جمع نہیں ہوئے ہیں ۔ در اصل یہ تمام اختلافات و نزاع جو آپ دیکھ رہے ہیں اور ہماری قوم کے خلاف ہونے والی یہ تمام سازشیں یہ سب صرف اسی لے ہی کہ انسان کی نہ تو تربیت کی گئی ہے اور نہ تزکیہ و تہذیب نفس ۔

زمانہ طفولیت سے تربیت کا آغاز ۔

نوجوان جو عالَم ملکوت کی طرف پرواز کےلیے پر عزم اور باحوصلہ ہوتےہیں اور ان کے نفوس دوسروں سے زیادہ پاک ہوتے ہیں، اور معنوی تربیت کے مطابق زندگی نہ گزاریں تو وہ ہر قدم جو اپنی منزل کی طرف اٹھائیں گے اور ان کی زندگی کا آفتاب جتنا اپنے غروب کی طرف سفر کرتا رہے گا نہ صرف یہ کہ وہ ملکوت اعلیٰ سے دور ہوتے جائں گے ، بلکہ ان کے قلوب پر کدورتوں کی تہہ دبیز ہوتی جائے گی ۔ چنانچہ تربیت کو ابتداہی سے شروع کرنا چاہیے اور زمانہ طفولیت سے ان کو پاکیزہ انسانوں کی تربیت کے زیر سایہ اپنی زندگی کا آغاز کرنا چاہیے ۔ زمانہ طفولیت کے بعد بھی یہ نوجوان جہاں جائیں ایک تہذیب یافتہ مربی کے زیر تربیت رہیں ۔چونکہ انسان کی زندگی کے آخری لمحات تک تربیت کا محتاج ہے ۔

تعلیمی نصاب میں اخلاق کا سر فہرست ہونا۔

اگر کسی صاحب علم نے اپنا تزکیہ نہ کیا ہو ، اگر وہ اسلامی احکامات کا عالم کیوں نہ ہو،اگر چہ وہ علم توحید ہی کا عالم کیوں نہ ہو، اگر اس نے تہذیب نفس نہیں کی ہو تووہ خود اپنے لیے اپنے ملک ، ملت اور اسلام کےلئے نہ صرف یہ سودمند نہیں ، بلکہ الٹانقصان دہ ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلام اور اپنی قوم کی خدمت کریں اور استعماری طاقتوں اور ان سے وابستہ افراد کے غلام نہ ہو تو یونیوسٹی، مدارس اور ان دونوں تعلیمی اداروں سے منسلک افراد کے علمی نصاب میں اخلاقی تعلیمات اور تہذیب نفس کو مفکراسلام شہید مرتضیٰ مطہری  ؒجیسے افراد معاشرے کوپیش کرسکیں۔ اگر خدانخواستہ اس کے برخلاف عمل کیاجائے تو اس وقت اس نیک شخصیت کی متضاد شخصیات معاشرے کے حوالے کی جائیں گی اور وہ معاشرے کو برائی اور عوام کو غلامی کی طرف لے جائیں گے ۔   (امام خمنی   ؒ)

بچوں میں اثر قبول کرنے کی صلاحیت ۔

آغاز زندگی میں ایک طفل کا نفس ایک بے نقش و نگار صفحہ کی مانند جو ہر قسم کے نقش و نگار کو بہت آسانی سے قبول کرتاہے۔                               (شرح حدیث جنود و عقل و جہل)

ایک بے بنیاد اور غیر علمی کلام ۔

یہ بات جاننی چاہیے کہ انسان جب تک اس دنیا میں ہے وہ اس دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور اپنے ارادے و اختیار کے تحت زندگی گزاررہاہے ۔ چنانچہ وہ ہر بری عادت اور صفت رذیلہ کو صفت حمیدہ میں تبدیل کرسکتاہے ۔ یہ جو کہا جاتاہے کہ’’ فلاں عادت یا صفت فطری و طبیعی ہے ، اس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے، یہ ایک بے بنیاد بات ہے کہ جس کی علمی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ۔( شرح حدیث جنودعقل و جہل)

انسان میں تربیت کی قابلیت ۔

اگر دنیا سے انبیاء ؑ کا وجود نکال دیاجائے تو ہم صرف ایسے حیوان ہوں گے کہ جس کےلیے یہی عالم طبیعت (دنیا)سب کچھ ہے اور ہمیں اس سے زیادہ ادراک نہیں ہوگا ۔ اگر ہمیں اس عالم میں لے جائیں اور ہمیں تیار کریں ہ جب ہم اس مادی سے اس عالم میں منتقل ہوں تو یہ سمجھیں کہ اس عالم کی زندگی اسی سعادتمند زندگی ہے ۔ تمام انبیاءؑ کی آمد کی غرض یہی تھی کہ بشر کی تربیت کیے جانےسے قابل اور دیگر تمام حیوانات سےمافوق ہے۔ (صحیفہ امام خمینی  ؒ)

خدائی علم کے اہداف ۔

علوم عقائد کو بھی آیت و نشان خدا ہونا چاہیے کہ جس کے حصو ل کا مقصد طلب حق کی جستجو اور تلاش ہو ، یعنی اگر ایک متکلم یا فیلسوف اپنی زندگی کو علم کلام یا فلسفہ کی تحصیل اوراس کی تمام اقسام میں تحقیق کےلئے صرف کرے لیکن اس کا یہ  علم اسے حق خواہ اور حق جو نہ بناسکے تو وہ علم خود ایک حجاب بلکہ حجاب اکبر بن جایے گا، نہ یہ علم الٰہی ہوگا اور نہ اس کی حکمت خدائی حکمت ، بلکہ کثرت سے بحث و مباحثے اور قال قیل کے بعد عالم طبیعت کی کثرت (خداسے دوری) میں ہی گرفتار ہوجائے اور روح کا رشتہ شجرہ خبیثہ سے مضبوط ہوتاجائے گا۔

کوئی حکیم اس وقت خدائی اور کوئی عالم اس وقت ربانی اور روحانی ہوتا ہے کہ جب اس کا علم خدائی اور ربانی ہو ۔ اگر کوئی علم ، توحید اورتجرد سے بحث کرے لیکن حق کی تلاش اور خداخواہی اسے اس بحث کی طرف مائل نہ کرسکے بکہ خود وہ علم اور اس کے نفس اور اس کے جلوؤں نے اسے یہ بحث و مباحثہ کرنے کی دعوت دی ہو تو نہ اس کا علم خدا کی نشانی ہے اور نہ اس کی حکمت خدائی ہےبلکہ نفسانیت و مادیت ہے۔

سود مند علم۔

خداوندعالم کی مخلوقات کےلطیف  نکات اور اسرار وجود کی باریکیوں میں تفکر کرنا سودمند علم ہے ۔(شرح  حدیث جنود عقل و جہل)

جہالت کےزیر سایہ ٹیکنالوجی ۔

یہ نئی ٹیکنالوجی ، آلات اور عقل کو حیران کرنے والی مصنوعات کہ جنہیں خداوندعالم نے موجودہ یورپ کو عطا کیا ہے ، اگر عقلی تقاضوں اور دین الٰہی کے پرچم تلے کنٹروول کی جاتیں تو پورا عالم ، نورانیت سے پر اور متوازن ہوجاتااور پوری دنیا باہمی اچھے روابط کے ذریعے سے اپنی سعادت کا انتظام کرتی لیکن افسوس کہ یہ اختراعی قوت ، جہالت ، نادانی ، شیطنت اور خود خواہی کے ز یر سایہ بنی نوع انسان کی سعادت اور مدینہ فاضلہ کے نظام کے خلاف عمل کررہی ہے اور جو چیز دنیا کی نورانیت او رروشنی کا باعث بننی چاہیے تھی وہ دنیا کو ظلمت و تاریکی کی گہرائیوں میں لے گئی ہے اور انسان کو بدبختی ، ذلت اور زحمت و تکلیف کی راہ پر لے جارہی ہے۔  (شرح حدیث جنود عقل و جہل)

خدائی علوم اور باطنی ہدایت

خداکی قسم اگر دینی اور خدائی علوم ہمیں راہ راست کی طرف ہدایت نہ کریں اور ہماری ظاہر و باطن کی اصلاح و تہذیب نہ کریں تو پست ترین کام ایسے علوم سے بہتر ہے ، چہ جائیکہ دنیوی کام کہ جن کا نتیجہ بھی جلدی نکلتا ہے اور ان کی برائیاں بھی کم ہیں۔ لیکن اگر دینی علوم کے ذریعہ سے دنیا کو تعمیر و آباد کیا جائے تو یہ در اصل دین فروشی ہے اور اس کا گناہ و عذاب دیگر تمام چیزوں سے بھی زیادہ ہے۔ (شرح حدیث جنود و عقل وجہل)                                 

معنویت کے بغیر علم۔

معنویت کے بغیر علم نہ تو آزادی ، ملت کی سعادت کا سامان فراہم کرسکتی ہے اور نہ ہی استقلال ۔ اسی طرح مادیت بھی تن تنہا ایک ملت کےلیے خوش بختی کا پیغام لانے سے قاصر ہے۔ یہ تمام چیزیں معونیت ہی کے زیر سایہ سعادت تک پہنچ سکتی ہیں۔ اسی لیےمعنویت بہت اہم امور سے سے تعلق رکھتی ہے ۔ آپ معنویت کو حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ تنہا علم بھی انسان کو فائدہ ہیں پہنچاسکتا ، علم اسی وقت حقیقی علم ہوگا کہ جب وہ معنویت کے ہمراہ ہو۔ ادب بھی تن تنہا سود بخش نہیں ادب اسی وقت کارگر ہے کہ جب وہ معنویت کے زیر سایہ ہو۔ یہ معنویت ہی ہےکہ جو بشریت کی تمام سعادت کا بیمہ کرتی ہے ۔ چنانچہ آپ کو چاہیے کہ معنویت کے حصول کے لیے کوشش کریں۔ تحصیل علم کے ساتھ ساتھ معنویت کو بھی حاصل کریں ۔ ہماری یونیورسٹیوں ، مکتب اور دینی مدارس کو چاہیے کہ وہ (اپنے حول و نصاب میں)معنویت و روحانیت پیدا کریں تاکہ وہ ان شاءاللہ سعادتمند ہوسکیں ۔  (صحیفہ امام خمینی   ؒ)

تہذیب نفس کے بغیر علم کا نقصان۔

اگر کوئی صاحب علم ہے لیکن اس کا علم تہذیب اخلاق اور روحانی تربیت کے ہمراہ نہ ہو تو ایسے علم و دانش کا نقصان و ضرر کسی ملک و ملت کےلیے جاہلوں سے نقصانات سےزیادہ ہوگا۔ایسا علم ایک ایسا اسلحہ بن جاتا ہے کہ جس کے ذریعہ ایک ملک کو نابود کیا جاسکتا ہے۔  

اسلام میں مادی علوم کا ہدف ۔

مغربی اور اسلامی یونیورسٹیوں میں بنیادی فرق ان کے نظام تعلیم اور نصاب میں ہوناچاہیےکہ جسے اسلام نے یونیورسٹیوں کےلیے پیش کیا ہے ۔مغربی یونیورسٹیاں خواہ کسی بھی علمی مرتبے تک پہنچ جائیں وہ طبیعت و فطرت کو سمجھ تو سکتی ہے لیکن اسے مہار نہیں کرسکتیں ۔ اسلام طبیعی اور مادیت سے مربوط علوم پر جداگانہ نظر نہیں رکھتا ہے ۔ تمام طبیعی او ر مادی علوم خواہ کسی بھی مرتبے تک پہنچ جائیں تب بھی وہ مقام حاصل نہیں کرسکتے کہ جو اسلام کو مطلوب ہے ۔ اسلام فطرت کو حقیقت کے لیے مہار کرتاہے اور تمام چیزوں کو وحدت اور توحید کی طرف لے جاتاہے ۔ وہ تمام علوم کہ جن کا آپ ذکر کرتے ہیں۔اوربیرونی ممالک کی یونیورسٹیاں بھی ان کا تذکرہ کرتی  ہیں تعریف کے قابل ہیں لیکن یہ سب کتاب عالم کا ایک ورق ہے اور وہ  بھی دیگر اوراق سے معمولی سے ورق ۔ عالم اپنے خیر  مطلق کے مبداء و آغاز سے لے کر انجام تک ایک ایسا موجود ہے کہ اس کا طبیعی موجودات ، خدائی موجودات کے مقابلہ میں بہت پست ہیں۔ اسلام اوردیگر مکاتب فکر کے درمیان میں توحیدی ادیان و مکاتب کی بات نہیں کررہاہوں، توحیدی مکتب اور دیگر مکاتب کے درمیان کہ جن میں سب سے عظیم مکتب اسلام ہے ، فرق یہ ہے کہ اسلام اسی طبیعت و مادیت کےساتھ ایک اور معنی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے، اسی علم طب میں ایک اور معنی اسلام کے پیش نظر ہے ، علم جیومیٹری میں اسلام ایک اور باب میں کھولنا چاہتا ہے ، علم نحو میں اسلام کی خواہش ہے کہ اسے ایک اور پہلو سے دیکھا جائے ۔

اگر کوئی قرآن شریف میں اس معنی کا مطالعہ کرے تو وہ دیکھے گا کہ قرآن مکیں ان تمام مادی و طبیعی علوم کے روحانی پہلوؤں کو بینا کیا گیا ہے کہ کہ فقط ان کے مادی پہلوؤں کو   وہ تمام امور کہ جن کی جانب قرآن نے تعقل و تفکر کی دعوت دی ہے اور یہ جو امر دیا گیا ہے کہ تمام محسوسات کو تعقل کی نگاہ سے دیکھئے ، یہ عقل و عقلانیت کا عالم ایک ایسا عالم ہے جو اصالت و حقیقت رکھتا ہے جبکہ یہ طبیعت و مادیت عالم صرف ایک سایہ اور ہم جب تک مادیت میں ہے عالم کے اس پست ترین سایہ کو ہی دیکھتے اور اسے حقیقت سمجھتے ہیں۔

وہ چیز جو اسلام کے پیش نظر ہے اوروہ ان مادی اور غیر مادی تمام علوم سےخواہاں ہے جس بات کا خواہاں ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب خدائی علوم سے کنٹرول کیے جائیں اور ان سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہو ۔ یعنی ہر علم کا خدائی اور روحانی پہلو مدنظر رکھا جائے ۔ اس طرح کہ اگر انسان مااور دیت کو دیکھے تو اسے خدا ہی نظر آئے ، اگر تمام موجودات پر نظر کرے تو اس میں خدائی جلوؤں کا مشاہدہ کرے اور اگر مادے کو دیکھے تو اس میں خدا کی نشانیوں کو دیکھے ۔ اسلام اسی لیے آیا ہے کہ تمام موجودات کو خدا اور تمامادی علوم کو خدائی علوم کی طرف پلٹادے اور یونیورسٹیوں سے بھی یہی چیز مطلوب ہے۔

اخلاقی اور روحانی تربیت کے ساتھ صحیح تعلیم کا حصول

علمی مواد کو اچھا بنائے اور اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کی طرف سے دی جانے والی تعلیم صحیح ہو۔ تعلیم کو مفید اور کارآمد ہونا چاہیے۔تعلیم اسی وقت سود مند ہوگی کہ جب وہ تزکیہ ، روحانی اور اخلاقی تربیت کے ہمراہ ہو۔ تمام یونیورسٹیاں اور دیگر تمام علمی مراکز  میں خواہ جہاں علماتدریس کرتے ہوں یا دانشمند حضرات ، ان تمام شخصیات کو ایسا ہونا چاہیے کہ یہ دینی مدارس اور یونیورسٹی کے طالب علموں کی اخلاقی تربیت اور ان کے  نفوس کا تزکیہ کرسکیں۔ جس طرح وہ تحصیل علم میں مصروف ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ وہ تزکیہ نفس بھی کریں۔ (صحیفہ امام خمینیؒ)                                   

با مقصد تحصیل علم کی ضرورت

بہترین اور سود مند جہت وہ ہے کہ جس کی طرف قدم بڑھایا جائے اور قرآن نے اسی کو بیان کیا ہے (اقرأ باسم ربک الذی خلق ) پڑھو لیکن سرسری انداز سے نہیں ، سیکھو مگرمعمولی انداز سے نہیں ۔

علم کیا ہے ؟

آج کے اس پیشرفتہ ترین دور میں بھی شعبہ تعلیم سے مربوط بعض افراد کے لئے کچھ علمی مسائل معمہ بنے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ روشن فکری کے نام سے دین سے دور ہوتے جارہے ہیں ـ ان کے خیال میں دین کے اندر جدید مسائل کا حل موجود نہیں ـ وہ کچھ سائنسی معلومات اور ریاضی فارمولے ازبر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بہت بڑے دانشمند ہیں اور دینی تعلیمات حاصل کرنے سے ہم بے نیاز ہیں ـ وہ پوری صراحت سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دین سے دور رہنا ہی انسان کی  ترقی اور تکاملی کا راز ہے۔

 اس بے بنیاد فکر کے اسباب وعوامل تو بہت زیادہ ہیں لیکن غور کیا جائے تو اسے نسل جدید، جوان اور نوجوانوں کے ذہنوں میں پروان چڑھا کر مستحکم کرنے میں حقائق سے نابلد بعض  مغربی دانشوروں کا بڑا کردار دکھائی دیتا ہے ،انہوں نے تعلیم یافتہ طبقے کو طرح طرح کے شبھات کے ذریعے دین سے بیزار کرنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں صرف کی ہے جس کا ایک بارز نمونہ یہ ہے کہ مغربی بعض نام نہاد مفکرین نے ایک مستقل نظرئیے کے طور پر علمی دنیا میں یہ بات پیش کردی کہ علم اور دین میں تعارض ہے ـ مفہوم علم اور دین میں کوئی مطابقت نہیں ـ علم اور دین کا محتوی آپس میں ٹکراتا ہے ـ دین کا دائرہ تنگ ہے جبکہ علم کے دائرے میں وسعت پائی جاتی ہےـ دیندار لوگ تنگ نظر جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس بے دین افراد روشن فکر اور اچھے خیالات کے مالک ہوتے ہیں وغیرہ ۔انہوں نے مختلف شکلوں میں اس مسئلے کو( تعارض دین  وعلم) بیان کیا ہے اس مختصر  کالم میں قارئین کرام کو فقط اس شبھے کی طرف متوجہ کرانا مقصود ہے امید ہے کہ تحقیق کا شغف رکھنے والے دانشوران اس پر ریسرچ کرنے کی زحمت کریں گے ـ اس شبھے کی پیدائش کا تاریخچہ دقیق معلوم نہیں لیکن یہ بدیہی ہے کہ اس کا تعلق جدید شبہات سے ہرگز نہیں، بلکہ بہت عرصہ پہلے یہ شبہہ دانشمندوں کی توجہ کا محور قرار پایا ہے ـ بعض اسلامی مفکرین نے اس پر تحقیق کرکے مقالے اور مستقل کتابیں لکھ ڈالی ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں اور مقالہ جات میں تمام زوایا سے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے، بطور نمونہ مفکر اسلام آیت اللہ مصباح یزدی نے رابطہ علم ودین کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے ،جس میں منطقی ترتیب کی پوری طرح رعایت کرتے ہوئے انہوں نے انتہائی حسین انداز میں مسئلہ تعارض علم ودین کی وضاحت کی ہے، اُس کتاب میں آیت اللہ مصباح نے مغربی اور اسلامی مفکرین کے نظریات کا تقابلی جائزہ لیا ہے اور استدلال کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ علم اور دین میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ان میں کاملاً مطابقت پائی جاتی ہے ،ان دونوں میں دوستی اور محبت ہے نہ تعاند اور دشمنی ـ مسئلہ تعارض علم ودین  اور مسئلہ رابطہ علم و دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم اور دین کی تعریف پر توجہ کریں آیت اللہ مصباح یزدی نے رابطہ علم ودین نامی اپنی کتاب میں دین کی سات اور علم کی نو تعریف ذکر کیا ہے جو بالترتیب ہم یہاں نقل کرتے ہیں اور کچھ قابل فکر سوالات لکھ کر قارئین کرام کو ان پر غور کرکے جوابات تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ـ

                                                                                  علم کی تعریفیں       

۱ـ۔علم یعنی اعتقاد جزمی 

۲ـ ۔علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت 

۳۔ـ علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت حصولی 

۴ـ ۔علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت حصولی کلی 

۵ـ ۔علم یعنی معرفت حصولی کلی اور اس سے مناسبت رکھنے والی عملی دستورات 

۶ـ ۔علم یعنی شناخت حصولی کلی حقیقی

۷ـ ۔علم یعنی شناخت حصولی تجربی 

۸ـ ۔علم یعنی مادی ظواہر کی شناخت 

۹ـ۔ علم یعنی مجموعہ مسائل کی معرفت

دین کی تعریفیں:

ـ ۱۔احساس تعلق ووابستگی کا نام دین ہے 

۲ـ۔امر قدسی پر اعتقاد رکھنے کو دین کہا جاتا ہے 

۳ـ ۔دین یعنی ماوراء طبیعت پر عقیدہ رکھنا اور اس سے مربوط رہنا 

ـ ۴۔دین یعنی رفتاری باور اور ارزشوں کا مجموعہ

۵ـ ۔دین سے مراد محتوی کتاب وسنت ہے 

۶ـ۔ دین الہی حق

۷ـ سعادت پر معطوف اعتقادات

ذیلی سوالات قابل غور ہیں

الف: کیا مفہوم ومحتوی علم ودین میں تعارض ہے؟

ب: علم اور دین کے درمیان نسب اربعہ میں سے کونسی نسبت پائی جاتی ہے؟

ج: کن عوامل کی بنیاد پر مغربی  مفکرین سے متاثر ہوکر بعض اسلامی مفکرین علم اور دین میں تعارض ہونے کے قائل ہوئے؟ 

د: اسلامی مفکرین نے اس شبھے کے جواب میں کیا راہ حل پیش ہے؟ نیز اس شبھے کے نقصانات کیا کیا ہیں؟

تعلیم کا نقطہ آغاز کیاہو؟

روایات میں ہے کہ فرشتے اپنے پروں کو آپ کے قدموں کے نیچے بچھاتے ہیں اور جس علاقے سے بھی آپ گزرجائیں گے وہاں پر موجود قبرستانوں کے مکینوں کے عذاب بھی برطرف ہوجائیں گے ۔

دینی طالب علم ہونے کے حوالے سے اپنا ظاہری حلیہ پتہ ہونا چاہیے جب خدا نے آپ کو یہ بلند مقام عطاکردیاتو بلند مقام حاصل کرنے والے کےکچھ مشکلات ہوتے ہیں اور جب انسان کوئی درس حاصل کرلیتا ہے تو اس کو برقرار رکھنے کے لیے کس قدر محنت کرنا ہوتی ہے۔

ایک دفعہ اگر کوئی ٹورامن جیت لے تو دوسری مرتبہ اسے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے کہ اس سےوہ کپ چھین نہ جائے ۔ سب سے پہلے ہرایک طالب علم کو ایک خصوصیت پیدا کرنا پڑے گی اور وہ ہے فقط اخلاص ، قربۃ الی اللہ علم دین کو حاصل کرناپڑے گا۔ نیت کو بلکل خالص کرناپڑے گا۔ بے ادب طریقے سے علم دین حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

اصل ہدف دین حنیفِ اسلام کی خدمت ہوناچاہیے۔ اگر یہ ہدف اور مقصد دماغ سے نکل جائے  ۔۔۔۔۔جاری ہیں۔۔

 

۲۳ نوامبر ۲۰ ، ۱۴:۰۰
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

ادارہ مصباح الہدیٰ

بیشک دین کا احیاء اور اس کی نشرو اشاعت شریعت اسلامی کے ان اولین مقاصد اور عظیم اہداف میں سے ہے جس کے لیے انبیاء ؑ و رسل اور اولیاء حق کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا اور حتمی مرتبت حضرت محمد ﷺکی رحلت کے بعد ان کے بارہویں جانشین کی غیبت کبریٰ کے دوران یہ ذمہ داری علماء دین کو سونپی گئی جنہوں نے اپنے ادوار میں اسے بطریق احسن انجام دیا۔

اور اسی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چند علماء کی سرپرستی میں ایک مئوسسہ خیریہ کا انعقاد کیا گیا ہے جس کےاہداف و مقاصد میں سے ایک احکام دین، صحیح عقائد اور اخلاق حسنہ کی نوجوان نسل کو تک رسائی ہے ۔ اور یہ ادارہ بھی انہیں کاوشوں کی ایک کڑی  ہے۔

جس کے بہت سارے اغراض ومقاصد  ہیں ۔


 

۱۴ می ۲۰ ، ۱۵:۱۱
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

   Request

 Every person having awareness about Islamic history knows that Islam is being targeted by the enemies of fierce intentions and destructive goals from the day of its appearance and in this era of  material development today, Islam's enemies against the Muslims grew intensely. They are fully committed and putting great stress to make Islam and Muslims weak from all aspects. After all their research, they concluded that among all the different sects of Islam and among all the religions, there is a special Muslim sect (Shia) who can be proven hurdle  in the way of their interest, and to make this sect  weak is our very first necessity for existence. So, they gathered their entire powers to work against the Shiite nation, and started their work on a broader scale. If we survey the whole of Pakistan and will found this fact that at this time, the organizations which are working against Tashaio (Shia), their main concern is the peaceful land of Baltistan because they have realized this fact that majority of Baltistani belongs to Maktab-e-Jaffari and Shia settled in this region are very strong by faith. Baltistan is also called the land of Scholars (Ulema),

۰۲ ژوئن ۱۹ ، ۰۳:۲۶
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

 

 

گزارشات

اسلامی تاریخ سے آگاہ ہر انسان جانتا ہے کہ اسلام ظہور کے دن سے ہی اپنے دشمنوں کے مزموم عزائم اور ناپاک اہداف کا نشانہ بنا رہا ہے اور آج کے اس مادی ترقی کے دور میں تو اسلام کے خلاف  اسلام دشمنوں کی دشمنی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔وہ تمام جوانب سے اسلام اور مسلمانوں  کو ناتواں اور کمزور کرنے پر کمر بستہ ہیں ۔انہوں نے پوری تحقیق کرنےکے بعد  یہ نتیجہ نکالا کہ مسلمان فرقوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں میں سے ایک خاص گروہ (شیعہ)ہی ہے جو ہمارے مفادات کی راہ میں کانٹا ثابت ہوسکتا ہےاور جسے کمزور کرنے میں ہی ہماری عافیت اور مفاد پوشیدہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے شیعہ قوم کے خلاف کام کرنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں یکجا کیں اور وسیع پیمانے پر اپنی فعالیت شروع کی اگر ہم پورے پاکستان میں سروے کرکے دیکھ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ اس وقت ملتِ تشیع کے خلاف کام کرنے والوں کی پوری توجہ خطئہ امن بلتستان پر ہے کیونکہ وہ اس حقیقت کو درک کرچکے ہیں کہ بلتستان کے باسیوں کی اکثریت کا تعلق مکتبِ جعفریہ سے ہے اور اس خطے میں آباد شیعہ ایمان وعقیدے کے اعتبار سے بڑے مضبوط ہیں۔ بلتستان کو علماء کی سرزمین بھی کہا جاتاہے جہاں کے لوگ سیاسی حکمرانوں سے زیادہ مذہبی رہنما اور علماء کی باتوں کو اہمیت اور فوقیت دیتے ہیں۔

۲۴ ژانویه ۱۹ ، ۱۲:۵۵
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

 

 

سرزمین تشیع پر نحوسیت کا پھیلاو              !

  کئی سال سے تمام بے دین اقوام عالم   مل کر بلتستان کے معاشرے سے غیرت مندی اور دینداری کو ختم کرنے کی کوششیں کرہی ہیں۔ دن رات محنت  کررہی ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے بلتستان میں لادینیت و فحاشیت عام ہوجائے۔ان مقاصد کی تکمیل کےلئے یہود ہنودسب مل کر مختلف مقاصد کے بہانے سے  کام کررہےہیں۔ اس مہنگائی کے  دور میں اتنی سخاوت سےہر چیز دیا جارہا ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ حتی ٰ کہ یہاں تک لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں کیا چاہیے جو چیز بتائے گا تنظیم  وہ چیز انہیں کو مہیا کردے گی۔ ان تنظیموں کا دعوا ہے کہ ہم ترقی کررہے ہیں۔ بھیڑ،بکری دینا کونسی ترقی ہے؟ یہ ہر ایک کے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں۔ گھریلو سامان دینا یہ تو کوئی ترقی نہیں  ہے۔ یہ چیزیں ہمارے پاس وافر مقدار میں موجودہیں۔ یوٹیلٹی چیزیں ڈلڈا،چینی ،نمک ،آٹا ، دال کپڑا   وغیرہ شامل ہیں۔مختلف علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچادی لیکن کسی بھی این جی اوز کی نظر ان پر نہیں لگی  ۔ ضلع شگر کے انتہائی پسماندہ علاقہ باشہ میں سن ۲۰۱۸ میں آٹھ مرتبہ سلسلہ وار آتشگی کا واقعہ پیش آیا اس میں پانچ جانیں جُلس کر ضائع ہوگئے ان کے لیے خدا کی قسم آج تک کسی نے تعزیت تک نہیں کی تعاون کرنا یا مالی مدد کرنا دور کی بات لیکن بلتستان میں   جن کے گھر وں میں تین تین گاریاں کھڑی ہوں، لاکھوں  رقم کے مالک ہوں ، عالیشان مکانات میں تشریف رکھتے ہوں  اور بڑے بڑے کارو باروں میں شراکت ہوں  ان کو بھی غریبی فنڈ کے نام پر بہت ساری رقم  ودیگر اشیا ءدیا جاتا ہے۔

شگرمیں شعبہ تعلیم جیسا حساس ادارہ مکمل طور پر یوایس ایڈ و  بِرٹش کونسل  کے اختیار میں ہیں ۔علاقہ باشہ میں جتنے بھی اسکول ہیں ان میں تمام ٹیچرز یوایس ایڈ و برٹش کونسل کے تربیت یافتہ اور تنخواہ دار  ہیں  کسی بھی تنظیم(این جی اوز) سے تعلق ر کھنے والاکوئی شخص آجائے تو اُس وقت سکولوں میں پروگرام کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر لڑکیوں کو ہی موقع دیا جاتا ہے جس لڑکی کے سر پر چادر نہ ہو اس کو زیادہ انعام سے نوازا جائے گا۔یوایس ایڈ کی طرف سے خواتین کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ایک حربہ ’’سیبک تھارن ‘‘ ہے کسی گاوں میں اسی موضوع پر ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں خواتین کو یہ کہہ کر مدعو کیا گیا تھا کہ   ایک مقامی   ادارہ کی طرف سے خواتین کے لیےسیبک تھارن  کے بارے میں معلومات دینی  ہے جس کی وجہ سے  پینڈال میں خواتین بھرے ہوئے تھے جس میں کچھ لوگوں نے تقریر کیا کہا گیا یہ مقامی ادارہ ہے جو سیبک تھارن کےلیے کام کرتا ہے جس کے لیےآپ خواتین آئیں ہم آپ کو ٹریننگ دینگے آپ ٹریننگ حاصل کرکے بہت پیسہ کما کر آپ اپنے شوہروں کو پال سکتے ہیں ۔ اس کے بعد دیگر مقررین نے بھی اسی موضوع پر خطاب کیا ۔ آخر میں سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا کسی عالم نے سوال  کیا کہ عورتوں کو کئی دن غیر نامحرموں کے ساتھ کیسے رہ سکتے ہیں ؟ اس کے جواب میں تنگ نظری پر ایک لیکچر دیا گیا کہا کہ یہ آپ کی تنگ نظری ہیں دنیامیں ایک ساتھ نہیں بیٹھے تو   زندگی کیسے کریں گے ؟ زندگی ہی ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد ایک گورمینٹ ٹیچر نے سوال کیا کہ آپ ہمیشہ عورتوں سے کام کیوں لیتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں اکثر مرد حضرات بے روز گار ہیں آپ ان جوانوں کو ٹریننگ دیکر کام لیے سکتے ہیں ۔ اس سوال  کا جواب ان کے پاس نہیں تھا وہ لوگ سر چھپانے کے لےجگہ ڈھونڈ رہے تھے ۔اس سوال کے بعد پینڈال میں بلکل خاموشی چھاگئی ۔  

میڈیا واقعاً خناس ہے یہ علاقہ اس خناسیت سے پاک تھا لیکن  این جی اوز کی مہربانی سے یہ خناس بھی وہاں پہنچا دیا گیا ہےیہ کہا جاتا ہے کہ آپ ٹی وی کے بغیرکیسے  زندگی بسر کررہے ہو؟  ٹی وی کے بغیر ترقی نہیں کرسکے گا۔ ٹی وی چینل کے ذریعے اس علاقے میں ترقی لاسکتا ہے۔  پتہ نہیں یہ لوگ ٹی وی چینل کے ذریعے کونسی ترقی کیا جارہا ہے؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے ٹی وی چینل( کیبل نیٹ ورک ) مہیا کردیا گیا کوئی بھی چینل استعمال کرسکتے تھے۔ اس میں کوئی بھی روک ٹھوک تھام نہیں تھااور ترقی کی راہ میں علماء کو رکاوٹ قرار دیتے ہیں ۔ ہر میٹنگ میں علماء کے خلاف لیکچرز دیا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ آپ کا علاقہ ترقی ہونا تھا لیکن یہ علماء کی وجہ سے ترقی نہیں کررہا ہے ۔

 یہ ہے اس علاقے کی رُودادجو بہت ہی مختصر بیان کیاگیا ہے ۔ اس علاقے میں لادینیت  و فحاشیت پھیلانے کے لئے کتنی کوششیں کی جار ہی ہیں؟ پوری دنیا مل کر دن رات کوششیں کررہی ہیں لیکن آج تک کسی نے بھی اسلامی  تعلیمات و ثقافت  پھیلانے کی کوشش نہیں کیاگیااور اس علاقے میں رہنے والے علماء ومتدینین کا یہ حال ہے کہ آج تک کسی نے بھی ان کے خلاف آواز نہیں اٹھایا۔ جو جانتے ہیں وہ خاموش ہیں اور جولوگ نہیں جانتے ہیں وہ ترقی حاصل کرنے میں مگن ہے۔ ان تمام مشکلات  کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ مقابلہ انہیں انداز میں کرنے کی ضرورت ہے جس انداز میں یہ تنظیمیں کام کررہے ہیں ۔ اس لیے بعض طالب علموں نےایک ادارہ تائسیس کیا ہے تاکہ ان تمام مشکلات کا حل اوران تنظیموں کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے جس انداز میں یہ تنظیمیں کام کررہی ہیں اسی انداز میں یہ ادرہ  مقابلہ کریے گی۔ہمیں اس سلسلے میں علمی ، مشاورتی ،مالی و فنی تعاون کی  اشد ضرورت ہے۔  آپ  تمام مومنین سےدست بستہ عرض کرتےہیں اس مشکل  کو حل کرنےمیں ہمارےساتھ حدالامکان تعاون فرمائیں۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                         شکریہ ۔

 

۲۴ ژانویه ۱۹ ، ۱۲:۵۴
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

مؤسسہ خیریہ البیان فاؤنڈیشن  کی علمی وسماجی خدمات

ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان مندرجہ ذیل تعلیمی خدمات  کےلیے وقف ہے۔ تعلیم کو عام کرنےکے لئے خاص طور پر غریب بچوں کے لئےاوردور دراز علاقوں میں  ہم خدمت کرتے ہیں۔ہمارے تعلیمی خدمات سے بچوں کی سکول میں کامیابی میں اضافہ، اسکول چھوڑنے کی شرح میں کمی اور معاشرے کی تعلیمی سطح میں اضافہ ہوا ہے۔

البیان فاؤنڈیشن بلتستان  کے کام کر نےکا طریقہ ،ہم یہ کاکیسے کرتے ہیں؟

پرائمری اسکول سپورٹ۔

 

ms bain

ہم مقامی عمائدین کے ساتھ مل کر تعلیمی کمیٹیاں بناتے ہیں جو استادوں کو بھرتی کرتی ہیں اور بچوں کو اسکول میں داخلہ دیتی ہیں۔مقامی لوگوں کے ساتھ تعاون سے محفوظ اور مستقل مالی امداد کی نشاندہی کی جاتی ہے جو تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں موثر رہے۔ اس طرح البیان فاؤنڈیشن بلتستان کے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ کامیابی سے جاری رہتا ہے۔

استاتذہ کی تنخواہوں، پروفیشنل ٹریننگ، طالبعلموں کی ٹیوشن، اسکول کی ضروریات کے سامان، یونیفارم اور اسکول میں ایک دوستانہ ماحول کو یقینی بنانے میں معاونت، سیکنڈری اسکول میں تعاون، کمرہ، بورڈ، گاڑی (پک اینڈ ڈراپ) اسکے علاوہ رہنمائی کا سلسلہ جار ی رکھنا، زندگی گزارنے کے ہنر سکھانا اورطالبعلموں کو مالی، تعلیمی اور معاشرتی  مدد فراہم کرنا تاکہ وہ پرائمری اسکول کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

 

پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی براہ راست معاونت

 

ps b

پرائمری اسکول کے سالانہ اخراجات تقریباً100ڈالر سالانہ ہیں، جو کہ ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں جووالدین کے لئے جسکی وجہ سے لڑکیوں کو اسکول سے باہر گھروں  یاکھیتوں میں کام کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

سیکنڈری اسکول، ہوسٹل اور ٹیوشن فیس تقریباً 120 ڈالر سالانہ ہے جو کہ اکثر اوقات والدین کے لئے بڑا بوجھ ہوتاہے۔اسکالر شپ کے حقداروں کا تعین، مالی حالات،تعلیمی قابلیت اور بچے کی معاشرے کی خدمت کے جذبے کو دیکھ کر کیاجاتا ہے۔ایک بار جو طالب علم منتخب ہو جاتے ہیں انکو ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان کے اسٹاف یا انٹرنشپ پرآئے ہوئے حضرات سے رابطہ کروا دیاجاتا ہے جو کہ رہنمائی کے ساتھ ساتھ ماہانہ جائزہ بھی لیتے ہیں۔ ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان نہ صرف تعلیمی میدان میں مدد کرتی ہے بلکہ زندگی کے امور پر ورکشاپ کرواتی ہے جیسا کہ صفائی،غذایت اور تعلیمی، مہارتیں وغیرہ۔

 

پری اسکول   (بچپنے میں تعلیم)

 

msp bn

bfbfh

گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں زیادہ تر بچے اسکول اس وقت تک شروع نہیں کرتے جب تک  کہ وہ 7سال کے نہیں ہو جاتے،ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان ایسے علاقوں میں خدمت انجام دے رہی ہے جہاں زیادہ تر لوگ ان پڑھ ہیں،  جس کے نتیجے میں 7 سال کابچہ جب کسی بغیر بنیاد کےتعلیم شروع کرتا ہے تو ایسے صورت حال تباہ کن ہو سکتی ہے۔ والدین بیٹے اور بیٹیوں کی اسکول کے پہلے دن ہی حوصلہ شکنی کرتی ہیں جب اکثر اوقات انکی اور انکے اساتذہ کی زبان ایک نہیں ہوتی.یہ بنیادی سال آگے آنےوالی کامیابی کے لئے بہت مہم ہیں پرائمری اسکول اور اسکے بعد کے سالوں کے لئے۔البیان فاؤنڈیشن بلتستان اسکول جانے سے پہلے 4سال سے 7 سال کے بچوں کو بنیادی زبان،معاشرتی آداب اور سیکھنے کے رسمی ہنر سکھاتی ہے تاکہ بچہ پرائمری اسکول میں کامیاب ہو سکے۔

 

اساتذہ کی پروفیشنل ٹریننگ۔

 

TT abf

بچوں کو دی جانے والی تعلیم کا معیار انکے اساتذہ پر منحصر ہے۔ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان  معاشرے کے ساتھ کام کرتی ہے تاکہ اساتذہ کو پروفیشنل ٹریننگ کے مواقع میسرآیئں.اسکی مثالیں اسطرح ہیں: اساتذہ کو فنڈ دینا تاکہ وہ قریبی شہروں میں سفر کرسکیں اور اچھے معیار کی ورکشاپ میں شرکت کر سکیں.یا پھر پروفیشنل ٹرینر کو دور دراز علاقوں میں لانا اور وہاں ورکشاپ منعقد کروانا۔اچھے تربیت یافتہ  اساتذہ اسکولوں میں زیادہ داخلے اور کامیابی کا سبب بنتے ہیں۔

 

ٹیوشن پروگرام۔

MS vfv

ps mb

 معاشرے میں ہم  جنکی ہم خدمت کرتے ہیں انکو اکثر اضافی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اسکول میں کامیابی کے

لئےادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان مقامی انجمنوں، اساتذہ اور والدین کے ساتھ کام کرتی ہے اور ٹیوشن پروگرامات کی صورت میں اضافی مددفراہم کرتی ہے۔البیان فاؤنڈیشن بلتستان کے ٹیوشن پروگرام کی وجہ سے ایسے طالبعلموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو چھٹی جماعت سےاوپر ہیں۔

 

معاشرتی لائبریری سینٹر و کمپیوٹر سینٹر۔

AC ABFB

lr abfb

ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان کی نگاہ میں لائبریری صرف کتابوں کے لئے بلڈنگ بنانے کا نام نہیں ہے۔ لائبریریز ایک بہت مضبوط کمیونٹی سینٹر ہو سکتی ہیں جسکے پس پردہ سیکھنے کا عامل موجود ہو۔لائبریری معاشرے کے لیے کئے جانے والے تعلیمی اقدامات کا بنیادی حصہ ہیں۔ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان  کمیونٹی لائبریریز کے قیام میں مدد فراہم کرتی ہے تعلیمی ورکشاپ، ٹیوشن پروگرام اور دیگر ہنر مندانہ ٹریننگ کے ذریعے۔

 

 تعلیم  بالغاں۔

 

sms abfb

mb abfb

ہمارے معاشرے میں ماؤں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ سکیں۔ البیان فاؤنڈیشن بلتستان انکے اس خواب کو پورا کرنے میں مدد کرتی ہے۔مائیں چاہتی ہیں کہ اپنے بچوں کی انکے ہوم ورک میں مدد کریں یا کم از کم اپنا نام لکھ سکیں۔ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان  ایسےسینٹرز کے قیام میں مدد دیتی ہے اور فنڈ فراہم کرتی ہے۔ ٹرینرز کے لئے خصوصی طور پرمواد فراہم کرتی ہے۔ بہت سارے سینٹر جو اس سلسلے میں بناۓ گئے ہیں وہ ابتدائی اسکول اور بچوں کی جلد تعلیم کے سلسلے والے اقدامات اور ماؤں کی درخواست پر بناۓ ہیں۔

 

خصوصی تعلیمی پروگرام۔

 

mb bg

md abfb

 

پاکستان کے دور  دراز  دیہاتوں میں وہ لوگ جنکی خصوصی ضروریات ہیں، چاہے وہ کسی خاص جسمانی معذوری کی وجہ سےہوں یا پھر وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے خاندان پر دباؤ کی صورت میں بچوں خاص طور پر لڑکیوں کوگھر پر رکھا جاتاہے تاکہ وہ ایسے افراد کی مدد کر سکیں جنکی خصوصی ضروریات ہیں یا پھر خود ان میں ایسا کوئی عذر پایا جاتا ہے جو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان ایسے خاندانوں کی مدد کرتی ہے جنکی خصوصی ضروریات ہیں تاکہ وہ اپنا معیار زندگی بہتر بنا سکیں اور تعلیم تک رسائی حاصل کرسکیں۔

 

صحت عامہ کے اقدامات۔

 

abfb sd

 

mc abfb

ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان ایسے معاشروں کی خدمت کرتی ہیں جہاں بچوں اور خواتین کے لئے بہت کم یا کوئی بھی مواقع نہیں ہیں جسکی وجہ سے دوران زچگی بچوں کی اموات میں کمی آئی ہے۔البیان فاؤنڈیشن بلتستان کے صحت عامہ کے اقدامات کے مثبت اثر رہے ہیں۔ ہمارے صحت عامہ کا پروگرام مقامی رہنماوں چاہے وہ دائیاں ہوں، اساتذہ یا مقامی مذہبی رہنما ان کو اس موضوع پر تعلیم فراہم کرتا ہے تاکہ معاشرے میں صحت مندانہ امور کو فروغ دیا جا سکے۔یہ مشتمل ہوتا ہے ان کی ٹریننگ پر،صاف پانی،غذایت، بیماریوں  سے بچاؤ اور زچہ اور بچہ کی صحت کے امورپردائیوں کے ساتھ کام کر کے ادارہ البیان فاؤنڈیشن بلتستان ہر بچے اور عورت تک صحت عامہ کی رسائی کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں ان معاشروں  میں جہاں ہم کام کرتے ہیں۔

 

۰۹ دسامبر ۱۸ ، ۱۷:۲۶
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

 

ادارہ مصباح الہدیٰ کے اغراض و مقاصد

بیشک دین کا احیاء اور اس کی نشرو اشاعت شریعت اسلامی کے ان اولین مقاصد اور عظیم اہداف میں سے ہے جس کے لیے انبیاء ؑ و رسل اور اولیاء حق کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا اور حتمی مرتبت حضرت محمد ﷺکی رحلت کے بعد ان کے بارہویں جانشین کی غیبت کبریٰ کے دوران یہ ذمہ داری علماء دین کو سونپی گئی جنہوں نے اپنے ادوار میں اسے بطریق احسن انجام دیا۔

اور اسی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چند علماء کی سرپرستی میں ایک مئوسسہ خیریہ کا انعقاد کیا گیا ہے جس کےاہداف و مقاصد میں سے ایک احکام دین، صحیح عقائد اور اخلاق حسنہ کی نوجوان نسل کو تک رسائی ہے ۔ اور یہ ادارہ بھی انہیں کاوشوں کی ایک کڑی  ہے۔

جس کے بہت سارے اغراض ومقاصد  ہیں ۔

۱۔ ـ علاقے میں اسلامی مراکز {دینیات سینٹر} قائم کرنا اور اسی مرکز کے توسط سے اقدار اسلامی کا احیا کرنا، اسلامی نظام ِتعلیم و نصابِ تعلیم تدوین کرنا ۔

 

۲۔ تعلیمی تربیتی و فکری ٹی وی کیبل نیٹ ورک  قائم کرنا تاکہ ہر گھر میں اسلامی تعلیم و تربیت  کو آسانی سے پہنچا سکے۔

۳۔۔ہراسکول میں عقائد و احکامِ اسلامی پڑھانےکے لیے ٹیچر زتعینات کرنااور اسکولوں میں اقدار اسلامی کا احیاء کرنے کی کوشش کرنا۔

۴۔رسمی تعطیلات کے دوران دین شناسی شارٹ کورس کا انعقاد کرنااور علماء کرام  کو تبلیغ پر ہر علاقوں میں بھیجنے کی کوشش کرنا ۔

۵۔ ثقافتِ اسلامی کا احیاءکرنا اور ثقافت اسلامی  کے فوائد سے اور مغربی ثقافت کے نقصانات وضرر سےلوگوں کو آگاہ کرنا۔

ان تمام مقاصد میں کامیابی اس وقت ممکن ہےجب آپ  مومنین  ہمارے ساتھ تعاون کریں گے ۔

ایک مدرسہ کا سالانہ اخراجات 500 ڈالر ہے۔ ادارہ مصباح الہدیٰ اس وقت کئی مدارس کے سرپرستی کررہی ہے۔ ایک ٹی وی کیبل نیت ورک کا لاگت 5000 ڈالر ہے ۔ ا س وقت دو کیبل لائن کی اشد ضرورت ہے۔ہر لائن سے تین ہزار مومنین کے گھرانے استفادہ کریں گے۔

 آپ تمام مخیّر حضرات سے گزراش کرتےہیں کہ اس کارِخیر (صدقہ جاریہ ) میں ہمارے ساتھ تعاون فرماکر اجرِعظیم حاصل کریں۔لہذا آئیے ہم سب مل کر  اس ادارہ کے ساتھ تعاون کریں تاکہ یہ ادارہ ہر لحاظ سے ہمارا دینی سہارا بنیں ۔جس کے توسط سے  ہر محلے میں دینی مدرسہ ہو ،ہر بچہ دینaدار ہو، ہمارا معاشرہ اسلامی ہو، ہمارےا سکولوں کا سسٹم اسلامی ہو۔

تمام مومنین سے تکراراً دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ  اس شجرۃ طیبہ کی آبیاری کرنے کے لیے تعاون کریں انشاءاللہ یہ ادارہ پانچ سال میں دنیا کے بہترین اداروں میں شمار ہوگا۔

 

۰۵ دسامبر ۱۸ ، ۱۹:۳۸
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

مؤسسہ خیریہ

ادارہ مصباح الہدیٰ

گسترش آموزش درجامعه

بااقدامات آموزشی ذیل می تواند  آموزش فراگیر را مخصوصا برای بچه های کم در آمدو فقیر،وخدمت رسانی به مناطق دور افتاده انجام داد .با اقدامات صورت گرفته تعداد دانشجویان بیشتر شده است.ترک مدرسه کمتر شده است وسطح آموزش هم درجامعه اضافه شده اشت.

فرایند اقدامات عملی این گونه است.

کمک به نوآموزان ومدارس ابتدایی

باکمک و همکاری  مردم  محلی ، گروه علمی تشکیل خواهیم داد وکار این گروه علمی پذیرش اساتید ونوآموزان در مدرسه است.

با کمک وهمکاری مردم محلی می تواند بودجه مستقل ومحفوظ را بدست آورد که برای ادامه کارآموزش موثر باشد واز این طریق می تواند با نبود اداره مصباح الهدی می تواند این فعالیت ها را انجام داد

همکاری وتعاون با دین چیزها امکان پذیر می باشد

حقوق اساتید یا روش تدریس اساتید،کمک به معلم خصوصی، فراهم نمودن وسایل مورد نیاز مدارس،فراهم نمودن لباس وایجاد فضای دوستانه در مدارس.

مدارس متوسطه وراهنمایی

کمک مالی وآموزشی واجتماعی وروانی تا از این طریق بچه ها دروس ابتدایی را ادامه دهند.

پرداخت شهریه معلم خصوصی ،اتاق وتابلو ،وسایل مدرسه ،ماشین رفت وبرگشت علاوه از این کار

راهنمایی ادامه می یابد وآموزش روش وسبک زندگی.

تعاون وکمک به مدارس ابتدایی و راهنمایی بطور مستقیم

بورسیه وکمک مالی برای افراد دارای شرایط  باتوجه به شرایط مالی فرد مورد نظر وجامعه لحاظ می گردد.

اتحادیه مصباح الهدی برای فارغ التحصیلان جدید امور وبه ستاد خواهران ارجاع داده می شود،کار آن علاوه بر راهنمایی بازدید هر ماه می باشد.

مصباح الهدی نه تنها در عرصه آموزش کمک می کند بلکه در عرصه های دیگر زندگی در کارهای مختلف را برگزار می نماید امثال نظافت، تغذیه ومهارت های آموزشی.

مدارس ابتدایی آموزش در دوران کودکی

در مناطق دور افتاده کشور پاکستان،اکثر بچه ها تاهفت سالگی به مدرسه نمی روند.

ادارہ  مصباح الهدی درمناطقی که خدمات انجام می دهد که درآنجا اکثر افراد بی سواد باشند.

به خاطر بی سوادی وقتی بچه ها به سن پنچ سالگی میرسند بدون هیچ اساسی آموزش راشروع می کنند.

پدر مادرها در روزهای اول سال تحصیلی، بچه ها را ناامید سازند.

در اکثر اوقات زبان بچه ها واستاد فرق می کند.سال اول تحصیلی،برای پیشرفت در آینده خیلی مهم است   وبرای مدارس ابتدایی وبرای سالهای بعد ،مصباح الهدی برای پیش دبستانی ها از چهار تا هفت سالگی، زبان اجتماعی ،روش آموزش وفن یادگاری را آموزش می دهد.

تابچه ها در مدارس ابتدایی موفق شوند.

تربیت  فنی اساتید 

یکی از اساسی ترین چیزی که آموزش بچه ها بهتر می سازد اساتید هستند. تا که اساتید آموزش وهنرهای لازم را فرا بگیرند.مثال آنها اینگونه است.

به اساتید بودجه میدهد تا آنها درشهرهای نزدیک سفر کنند ودرکارگاه های مختلف شرکت نمایند.

یا با کارشناسان امور آموزشی را به مناطق دور افتاده سفر نمایند.

اساتید که در دوره تربیت معلم را پشت سر گذاشته اند بیشتر موفق می شوند.

برنامه معلم خصوصی

اکثر بچه های که ما به آنها کمک نمی کنیم،نیازمند کمک اضافی هستند.برای موفقیت وپیشرفت مدرسه  مصباح الهدی با تشکل های محلی ،اساتید ووالدین کار می کند وبرای دروس کمکی هزینه جداگانه ای  درنظر می گیرد.بخاطر کمک وبرنامه برای معلم خصوصی وکمک آموزش مصباح الهدی  این کار ها را بر عهده خواهد گرفت.  براساس اقدامات انجام شده اول راهنمایی ها پیشرفت خوبی داشته اند.

تاسیس کتاب خانه عمومی

ازنظر مصباح الهدی،کتاب خانه فقط یک مکان فیزیکی برای انبار کتاب ها نیست.بلکه کتابخانه ها یک مرکز مهم همگانی است که درسایه آن، انگیزه فراگیری  پیدا می شود.کتابخانه یکی از بنیه های اساسی برای اقدامات آموزشی در جامعه است. ادارہ مصباح الهدی برای تاسیس کتابخانه های عمومی وهمگانی پشتیبانی مالی می نماید.توسط  کارگاه آموزشی و دروس کمکی و با دیگر هنر های فنی.

برنامه سواد آموزی

در جامعه ما مادران این آرزو را دارند که آنها باسواد باشند نوشتن وخواندن رابلد باشند.مصاح الهدی برای برآوری این آرزوها کمک می کند.مادران میخواهند در تکالیف منزل به  بچه ها کمک کنند.یا حد اقل بتوانند اسم خودشان  را بنویسند.

مصباح الهدی برای تاسیس مراکزی کمک می کنند وبودجه  می دهند،برای فراگیران  مواد درسی را آماده می کنند علی الخصوص برای خانم ها مذاکر زیادی برای این اهداف تاسیس شده است.که  این مراکز براساس درخواست خانم ها تاسیس شده است.

اقدامات بهداشت عمومی

مصباح الهدی به جوامعی  خدمت می کند که در آن هیچ زمینه ای برای بچه ها وخانم ها وجود داشته باشند.

اقدامات بهداشتی مصیاح الهدی موثر واقع شده است.برنامه بهداشت هم  برای روحانیون اساتید ودیگر افراد آموزش لازم را فراهم می نمایند، تا امور بهداشتی را در جامعه توسعه یابند.

آن به امور ذیل بستگی دارد .آب آشامیدنی بهداشتی ،تغذیه،کنترل  بیماری های واگیر وامور بارداری وزایمان با همکاری  با پرستاران، بهداشت عمومی را برای بچه ها ومادران انجام داده است.

برنامه آموزش ویژه

در مناطق دور افتاده پاکستان وروستاها افرادی که نیازهای اولیه آنها است. نیاز های اولیه آنهاست.نیازمندها چه از لحاظ معلولیت باشد یایخاطر عدم دستیابی به وسایل به خاطرفشار بر خانواده بچه ها،خصوصا دختران در خانه محبوس می شوند،که این به خاطر نیاز های آنهاست یا بخاطر عذری که است که پیش آمده که آن در راه آموزش مانع است،اتحادیه مصباح الهدی به چنین خانواده های کمک می کند تا با حل نیاز های اولیه سطح زندگی خود را بهتر سازند وبه آموزش دسترسی پیدانمایند.

 

واتساپ:00989360204058

۰۵ دسامبر ۱۸ ، ۱۹:۰۴
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

مؤسسہ خیریہ

ادارہ مصباح الہدیٰ

اغراض و مقاصد

سیستم آموزش:

فراھم نمودن اصلی ومعیاری دانش یک مسئلہ مھم است وظایف این شعبہ این است کہ برای حل مشکلات آموزشی، ساختن مدرسہ ودانشکدہ درمنطقہ وبرای افراد مجرب وبااستعداد امکانات فراھم نماید تااینکہ مشکلات منطقہ یی ازلحاظ آموزشی حل شودبرای دانش آموزان فراھم نمودن فرم مدرسہ ولوازم تحریری مشمول این برنامہ ھست۔

شعبہ کفالت ایتام:

تحت این شعبہ مصباح الھدی بنحو احسن متکفل ایتام خواھد بود علاوہ بر مخارج تحصیلات آنھا متحمل مخارج خانگی نیز خواھد بود۔

تاسیس خوابگاہ:

برای کسانیکہ تحصیلات سطح بالا رامی خواھند ادامہ بدھند درشھر اسکردو شھرھای دیگرباتاسیس یک خوابگاہ عالیشان باامکانات رایانہ،لپ تاپ واز کتابخانہ مزین خواھد نمود۔

شعبہ انتظامات غیرمترقبہ:

ھدف برنامہ اصلی مصباح الھدی این است کہ در ھرسانحہ ی غیر مترقبہ،مثلا در صورت سیل وآتشزدگی بہ موقع اقدام نماید وشدت تلفات را کاھش دھد۔

برای پیشرفت فعالیت ھای کمک رسانی و نجات دہندگان باھماھنگی دیدبانان، ادارجات،بسیجی ودیگرموسسات خیر یہ برنامہ داوطلب ملی، راہ اندازی خواھد نمودو درسراسر کشورباموئسساتی کہ داوطلب خدمات انجام می دھند ارتباط کاری ایجاد خواھد نمود،برای برگرداندن آسیب دیدگان را بہ حالت اولی و عادی زندگی،کمک نمودن بدون تعصب قومی و نژادی براساس عدل وانصاف وآبادکاری آنھابطور مستقل اقدام خواھدنمود۔

شعبہ انتظامات:

ھدف برنامہ اساسی مصباح الھدی این است کہ ھرسانحہ ی غیر مترقبہ مثلا در صورت آتش زدگی وریزش تودہ برف، بہ موقع برای کمک اقدام نمودن و کاھش دادن تلفات،فعالیت ھای نجات دھندگان رابا نظم فعال کرد وجوانھارابطرزدیدبان تربیت دادن وسروس آمبولانس و آتش نشانی راہ اندازی خواھدنمودوبرای این برنامہازنجات دھندگان (ریسکیو1122)کمک طلب خواھدنمود۔

برنامہ ھای مستقل و نتائج دیرپا:

تحت این برنامہ مصباح الھدی،برای فراھم نمودن نیازھای اولیہ جامعہ،ازابعاد مختلف کارھارابررسی خواھد کردودراین زمینہ برای رفع نمودن موانع،راہ ھای مناسب تلاش می نمایدودرنتیجہ ازتوانائی ھای افرادی،مالی وفکری استفادہ می نمایدوبرای بدست آوردن نیازھای اولیہ زندگی بشری بلواسطہ یابلاواسط اقدام می نماید۔

شعبہ روابط اتحادیہ:

تحت این شعبہ درسراسرکشور باکارکنان ادارات و تشکل ھای رفاھی وخیریہ روابط ایجادخواھدنمود و فعالیت ھای امورخیریہ رابایکدیگر ھماھنگ نمودن سعی وتلاش مینمایدوباآنھا حتی الامکان علاوہ بر تبادل معاونت و تجربیات رابطہ کارکردایجاد خواھدنمود۔

شعبہ تحقیق وبررسی:

تحت این شعبہ درسراسرکشور، محرومین وکسانیکہ مستحق کمک ھستند مشکلات پیش آمد آنھارابررسی نمودہ وبرای حل آنھاگذارش تھیہ خواھد نمودوبرای عملی نمودن این گذارشھا،آراء وپیشنھادات ترتیب دادہ خواھدشد۔

آمادگی پروژہ ھای کوچک وکاربردساختن آن:این شعبہ باسفارش ادارہ تحقیقات درپروژھای کوچک، باغیچہ،آب وفاضلاب،پروژھای فلتر،فراھم نمودن تخم وکودوبرای کشاورز وام ھای اندک، کمکھای عروسی برای افرادنیازمندودرمان بیماران مشمول این پروژہ ھست،این پروژہ ھارامرتب نمودہ وبہ افرادِخیر فرستادہ خواھدشد۔

شعبہ مرکزبھداشت:

فراھم نمودن امکانات بھداشت درمانگاہ برای مردم براساس مراکز بھداشت، درمانگاہ وباتمام لوازم بھداشتی تاسیس بیمارستانھا مشمول ازوظائف این شعبہ ھست، امراض واگیر بالآخص سرطان،فلج وفلج اطفال کہ درمنطقہ بسرعت شیوع پیدامیکندبرای جلوگیری ازاین امراض کمک طلبیدن ازبیمارستانھای کشوری ومراکزبھداشت۔

شعبہ رسانہ:

اجراءنمودن شبکہ تلویژیون درمنطقہ وبرنامہ ھای آموزشی و تربیتی دررسانہ ھا،مجلہ ھاونشان دادن راہ ھابہ مردم برای جلوگیری ازشیوع امراض بسبب آنھا، پیشنھادزراعت وراھنمائی، مشمول ازوظائف این شعبہ ھست۔

 

 

مرکز آموزشگاہ:      

ازوظائف این شعبہ این است کہ برای جوانھا ساختن مرکز رایانہ، کاردستی، مدرسہ، زراعت،شجرکاری واستخدام نمودن معلم لایق وباھوش تااینکہ تمام جوانھاھنررایاد بگیرند۔

 

۰۵ دسامبر ۱۸ ، ۱۹:۰۴
البیان فاؤنڈیشن بلتستان