ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

اغراض و مقاصد
علاقے میں دینیات سینٹرز کاقیام،مختلف شہروں، قصبوں میں لائبری قائم کرنا، سکولوں کے ایام تعطیلات میں دین شناسی شارٹ کورس کا انعقاد، سکول وکالجز میں معارف اسلامی کے لیے اساتید کا تقرر، اساتیدکی تربیت کرنا تاکہ وہ بہتر انداز میں بچوں کی تربیت کرسکے، مغربی تہزیب جو سکولوں میں رائج کرنے کی انتھک کوششیں ہورہی ہیں ان کا مقابلہ کرنا۔ اور اسلامی تہذیب معاشرہ و سکول و کالجوں میں رائج کرنا۔
ہم سب پر امر باالمعروف ونہی از منکر واجب ہے۔
آپ تمام سے دست بستہ عرض ہے کہ اس کارخیر میں ہمارے ساتھ تعاون فرماکر ہدف تک پہنچنے میں ہمارے ساتھ دیں

طبقه بندی موضوعی

احترام والدین کا دنیامیں نتیجہ

MS vfv

اگر احترام والدین سے مربوط روایات معصومین علیھم السلام کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت اور احترام کا نتیجہ دو قسم کا ہے:١۔ دنیوی نتیجہ۔٢۔ اخروی نتیجہ ۔یہاں اختصار کے ساتھ دنیوی اور اخروی نتا ئج کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے دنیوی نتائج میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :١۔ ان اللّٰہ تعالی وضع اربعا فی اربع برکۃ العلم فی تعظیم الا ستاذ وبقاء الایمان فی تعظیم اللّٰہ ولذت العیش فی بر الوالدین والنجات من النار فی ترک ایذاء الخلق۔(١)خدا وند متعال نے چار چیزوں کو چار چیزوں میں قرار دیا ہے:۔۔۔۔۔(١) کیفر کر دار ج ١ص ٢٢٤.
١۔ علم کی بر کت کو استا د کے احترام میں۔٢۔ ایمان کی بقاء کو خدا کے احترام میں۔٣۔ دنیوی زندگی کی لذت کوو الدین کے ساتھ نیکی کرنے میں۔٤۔ جہنم کی آگ سے نجات پا نے کو لوگوں کو اذیت نہ پہچانے میں ۔ہر با شعور انسان کی یہ کو شش ہو تی ہے کہ اس کی زندگی خوش گوار ہواور اس سے لذت اٹھائے زندگی کی شیرینی اور لذت سے بہرہ مند ہونے کی خاطر مال اولاد خوبصورت بنگلہ گاڑی اور بیوی وغیرہ کی آرزو ہو تی ہے لیکن اگر ہم غور کریں کہ ہمارے پاس یہ ساری چیزیں مہیا ہوں لیکن والدین سے رشتہ منقطع اور ان کی خد مت انجام دینے سے محروم ہو تو وہ زندگی ان لوازمات زندگی کے باوجود شیرین اور لذت آور نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کہ دنیوی زندگی کی لذت ماں باپ کی خدمت اور احترام رکھنے میں پوشیدہ ہے پس اگر کوئی شخص دنیوی لوازمات زندگی کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھے لیکن والدین کا احترام نہ کرے تو یہ خام خیالی اور کج فکری کا نتیجہ ہے کیونکہ والدین کا احترام دنیوی زندگی میں سعاد ت مند ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے ، لہٰذا ذات باری تعالی کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت ہم پر لازم ہے، تب ہی تو متعدد روایات میں ان کے حقوق اور احترام کی سفارش کی گئی ہے لہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے والدین کی خدمت اور احترام کی تاکید کرتے ہوئے یوں ذکر فرمایا ہے :”ویجب للوالدین علی الولد ثلا ثہ اشیاء شکر ھما علی کل حال وطاعتھما فیما یا مر انہ و ینہیانہ عنہ فی غیر معصیۃ اللّٰہ ونصیحتھما فی السر والعلانیۃ وتجب للولد علی والدہ ثلا ثۃ خصال اختیارہ لوالدتہ وتحسن اسمہ والمبا لغۃ فی تا دیبہ ”(١)” فرزند پر ماں ،باپ کے حق میں سے تین چیزیں لازم ہیں:١۔ ہر وقت ان کا شکر گزار ہونا۔٢۔ جن چیزوں سے وہ نہی اور امر کرے اطاعت کرنا بشر طیکہ معصیت الہی نہ ہو۔٣۔ ان کی موجود گی اور عدم موجود گی میں ان کے لئے خیر خواہی کرنا۔اسی طرح باپ پر اولاد کے تین حق ہیں:١۔ اچھا نا م رکھنا ۔٢۔ اسلامی آئین کے مطابق تر بیت کرنا۔٣۔ ان کی تربیت کیلئے اچھی ماں کا انتخاب کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)تحف العقول ص ٣٣٧.

لہٰذا جو شخص دنیامیں زندگی کی لذت اور سعادت کے خواہاں ہے اسے چاہئے کہ والدین کی خدمت سے کبھی کو تا ہی نہ کریں ۔
الف۔ ماں باپ کی طرف دیکھنا عبادت ہےاسلام میں کئی ہستیوں کے چہروں کو دیکھنا عبادت قرار دیا ہے:١۔ عالم دین کے چہر ے کو دیکھنا ۔٢۔ معصومین کے چہرے کو دیکھنا ۔٣۔ والدین کے چہرے کو دیکھنا عبادت کا درجہ دیا گیا ہے کہ یہ حقیقت میں ما ں باپ کی عظمت اور فضیلت پر دلیل ہے ۔ماں باپ کی طرف دیکھنے کی دو صورتیں ہیں :١۔ ناراضگی اور غم وغصہ کی حالت میں دیکھنا کہ اس طرح دیکھنا باعث عقاب اور دنیوی زندگی کی لذتوں سے محروم ہو نے کا سبب ہے کہ جس سے شدت سے منع کیا گیا ہے چنا نچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا :”من العقوق ان ینظر الرجل الی ابویہ یحد الیھما النظر”(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)بحار ج ٧١

برے اور عقاب آور کا موں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان والدین کی طر ف تند وتیز نگاہوں سے دیکھے۔ایک اور روایت میں فرمایا :”من نظر الی ابوبیہ بنظر ماقت وہما ظالمان لہ لم یقبل اللّٰہ لہ صلواۃ ”(١)اگر کو ئی شخص اپنے ماں باپ کی طرف ناراض اور غضب کی نگاہ سے دیکھے تو خدا اس کی نماز کو قبول نہیں کرتا اگر چہ والدین نے اس پر ظلم بھی کیا ہو۔لہٰذا اگر کسی روایت میں والدین کی طرف دیکھنے کی تعریف آئی ہے اسے عبادت قرار دی ہے تو اس سے مراد محبت اور پیار کی نگاہ ہے۔دوسری قسم یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا” النظر الی وجہ الوالدین عبادۃ ”(٢)ماں باپ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے یعنی باعث نجات اور سعادت ہے ۔ دوسری روایت میںامام رضا علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا:”النظرالی الو الدین برأ فۃ ورحمۃ عبادۃ۔”(٣)۔۔۔۔۔۔(١)اصول کافی ج ٢ ص ٣٤٩.                                                                                           (٢) مستدرک ج١٥ ص ٣٠٤. (٣)حقوق زن وشوہر.
ماں باپ کی طرف مہرو محبت کے ساتھ دیکھنا عبادت ہے اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) نے یوں فرمایا:” نظرالولد الی والدیہ حبا لھما عبادۃ”(١)ماں باپ سے مہر ومحبت کی نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے ۔ نیز ایک روایت جنا ب اسماعیل نے اپنے والدبزرگوار حضرت امام جعفر صادق + سے اور امام نے اپنے آباء علیہم السلام سے نقل کی ہے:” قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نظرالولد الی والدیہ حبالھما عبادۃ”(٢)پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا فرزند کا ماں باپ کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے ۔اسی طرح ایک روایت میں ما ں باپ کی طرف دیکھنے کو حج مقبول جیسا ثواب ذکر ہوا ہے :”عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ما من ولد بار ینظر الی والد یہ نظر رحمۃ الا کا ن لہ بکل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)کشف الغمتہ (ص ٢٤٢ نقل ارزش پدر ومادر .(١)بحار الانوار ج ٧٢ .

نظرۃ حجۃ مبرورۃ فقالو یا رسول اللّٰہ وان نظر فی کل یوم مائۃ قال نعم اللّٰہ واطیب ۔”(١)ابن عباس نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا کوئی بھی فرزند محبت کی نگاہ سے والدین کی طرف دیکھے تو ہر نظر کے بدلے حج مقبول کے برابر ثواب ہے اس وقت لوگوں نے کہا اے رسول خدا اگر ایک دن میں سودفعہ دیکھے پھر بھی حج کے برابر ہے ؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہا ں حج کے برابر ہے (کیو نکہ ) خدا ہر چیز سے بزرگ تر اور ہر عیب سے منزہ ہے ۔گذشتہ روایات کی روشنی میں کئی مطالب واضح ہو جاتے ہیں:١۔ ماں باپ کی طرف دیکھنے کی دوصورتیں ہیں غم وغصہ کی نگاہ سے دیکھنا یہ شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے۔٢۔ مہر ومحبت سے دیکھنا یہ عبادت ہے۔٣۔ ماں باپ کی طرف دیکھنے کا ثواب حج مقبول کے برابر ہے والدین مومن ہو یا فاسق فاجر ہو یا کافر قابل احترام ہےں ۔
ب۔ ماں باپ کی خدمت میں طول عمروالدین کی خدمت اور احترام کرنے کے دنیا وی نتائج میں سے اہم ترین ۔۔۔۔۔۔۔(١)بحار الانوار .

نتیجہ یہ ہے کہ ماں باپ کا احترام اور ان کی خدمت کرنے سے خدا اس کو دنیا میں طویل اور لمبی زندگی عطا کر تا ہے چنا نچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم (ص) نے یوں فرمایا :” قال النبی من احب ان یکو ن اطول النا س عمرا فلیبر والدیہ”(١)اگر کوئی شخص طول عمر کے خواہان ہو تو ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو ۔اس روایت میں پیغمبر نے شرط کے ساتھ فرمایا جو لوگ دنیوی زند گی کے تمام مراحل میں کا میابی اور طولانی عمر چا ہتے ہیں تو والدین کے ساتھ نیکی اور ان کا احترام فراموش نہ کرے۔نیز دوسری روایت میں آنحصرت (ص) نے فرمایا :”من سرہ ان یمد لہ فی عمرہ ویبسط لہ فی رزقہ فلیصل ابویہ فان صلتھا من طاعۃ اللّٰہ ” (٢)اگر کو ئی شخص عمر طولانی اور رزق میں اضافہ ہونے کا خواہاں ہو تو والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرے اور ہمیشہ رابط رکھے چو نکہ ان سے نیک رفتار ی اوراچھا۔۔۔۔۔۔(١)مستدرک ج ١٥ .  (٢) بحارج ٧٤ صفحہ ٨٦.

سلوک کرنا اطاعت الٰہی کے مصادیق میں سے ایک ہے۔نیز ایک اوردوسری روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :” ان کنت ترید ان یزاد فی عمر ک فبر شیحک یعنی ابویہ” (١)اگر تم اپنی عمر میں تر قی اور اضافہ ہونا چاہتے ہو تو اپنے ماں باپ کی خدمت انجام دو اور ان کے ساتھ نیکی کرو اسی طرح ایک اور روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا :”من بر والد یہ طوبٰی لہ و زادا لہ فی عمرہ”(٢)خوش نصیب بند ہ وہ ہے جو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتا ہے کیو نکہ ایسے بندے کو خدا اس کے عوض میں اس کی دینوی زندگی میں اضا فہ فرماتاہے۔اگر انسان ان تمام روایات کی تحلیل وتفسیر کرے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ طول عمر کا مسالہ بہت ہی مشکل اور اہمیت کا حامل ہے لیکن انسان غور کرے تو والدین کی برکت سے اور ان کی خدمت کرنے کے نتیجے میں خدا انسان کی دنیوی زندگی میں اضافہ فرماتا ہے جبکہ آیت یہ ہے کہ اگر مو ت کے مقررہ وقت آپہنچے تو ایک لحظہ تقدم و تاخر کی گنجائش محال ہے ۔۔۔۔۔۔(١) بحار ج ٧١ .(٢)بحار الانوار.

لیکن والدین کی خدمت اور احترام ایسا سبب ہے کہ اس کو انجام دینے والے کو خدا طویل عمر اور لمبی زندگی عطا کرتا ہے کہ جس کے خواہاں ہر انسان ہیں چاہے امیر ہو یا غریب عورت ہو یا مرد۔لہٰذاان احادیث کی روشنی میں بخوبی کہہ سکتا ہے کہ سعادت دنیوی اور اخروی ماں باپ کی خد مت میں پوشیدہ ہے کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ خداوندعالم ماں،باپ کی خدمت کر نے والوں کو عمر اور دولت میںاضافہ کرتا ہے کہ یہ دونوں سعادت دنیا وآخرت کا سبب ہیں لہٰذا اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ والدین کتنی بڑی نعمت ہیں کہ خداہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق اور ان کے تابع ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔
ج ۔والدین کے احترام میں دولتدنیوی نتائج میں سے تیسرا اہم نتیجہ یہ ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی اور خوش رفتار ی سے پیش آنے کے نتیجے میں خدا اس کو دنیا میں دولت مند اور فقر وفاقہ سے نجات دیتا ہے کہ یہ والدین کی عظمت اور حقوق کی ادا ئیگی شر یعت اسلام میں لازم ہو نے کی دلیل ہے ۔کیو نکہ دنیا میں ہر انسان کی خواہش یہی رہتی ہے کہ اپنے آپ کو دولت مند اور امیر بنائے تا کہ کسی کا بوجھ نہ بنے اور معاشرے میں باوقار اور عزت مند نظر آئے، لہٰذا ہزاروں مشقتیں اٹھا نے پر آمادہ ہے تا کہ دولت سے محروم نہ ہو پائے ،اگر انسان شریعت اسلام کے اصول و ضوابط سے واقف ہو تو کبھی بھی دولت میں اضافہ کا میا ب زندگی گذار نے میں مانع پیش نہیں آتا کیو نکہ نظام اسلام نے دنیوی زندگی کو آباد کرنے میں اتنی اہمیت دی ہے کہ جتنی اہمیت ابدی زندگی کو دی گئی ہے۔ چنانچہ اس مطلب کو حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے علماء یوں نقل کرتے ہیں:”اعملوا لدینا کم کا نک تعیش ابداً و اعملوا لآ خرتکم کانک تموت غدا ”(١)تم لوگ دنیا میں اتنی زحمت اٹھا ؤکہ گویا ہمیشہ زندہ رہو گے اور آخرت کیلئے اتنا کام کرو کہ گویا کل ہی مر جاؤ گے۔لہٰذا اگر ہم غور کریں تو عقل بھی دنیوی زندگی کو حلال طریقے کے ساتھ آباد کرنے کی تاکیدکرتی ہے کیونکہ یہی دنیوی زندگی میں ہی ابدی زند گی کی آبادی اور نا بودی پو شیدہ ہے اور دولت دنیوی زند گی کو آباد کرنے کے ذرا ئع میں سے ایک اہم ذر یعہ ہے کہ اگر ہم والدین کے حقوق کی رعایت کر ینگے تو خدا نے اس کو دولت مند بنانے کی ضمانت دی ہے کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم (ص) نے یوں فرمایا ہے :۔۔۔ ۔۔۔۔۔(١)نہج البلاغہ.

من یضمن لی برالوالدین وصلۃ الرحم اضمن لہ کثرۃ المال وزیادۃ العمر والمحبۃ فی العشیرۃ ”(١) یعنی اگر کوئی شخص مجھے ضما نت دے کہ میں والدین کا احترام اور صلہ رحم ترک نہیں کروں گا تو خدا اس کے مال اور عمر میں اضافہ کرنا اور ان کے خاندان میں وہ عزیز ہونے کی میں ضمانت دیتا ہوں .نیزدوسری روایات میں اس طرح کی تعبیریں بہت زیادہ ہیں کہ ویبسط الرزق یعنی اگر ہم والدین کے حقوق کو ادا کریں تو خدا ہماری دولت میں مزید اضافہ فرمائے گا بہت ساری روایات جو عاق والدین کی مذمت پر دلالت کرتی ہے کہ ان میں سے بھی کچھ روایات سے واضح ہو جا تا ہے کہ والدین کا احترام نہ کرنے کے نتیجہ میں اس کی عمر میں کو تا ہی دولت میں کمی آجاتی ہے کہ ان روایات سے انشاء اللہ بعد میں تفصیلی گفتگو ہو گی۔لہٰذا والدین کا احترام رکھنا حقیقت میں ہما ری زندگی آباد ہو نے کا ذر یعہ ہے لیکن ہماری نا دانی ہے کہ ہم والدین کے حقوق کو ادا کرنا وبال جان سمجھتے ہیں کہ یہ اسلامی تعلیمات سے محروم اور اصول وضوابط کے پا بند نہ رہنے کا نتیجہ ہے وگر نہ بہت ساری روایات اس طرح کی ہے کہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ ۔۔۔۔۔  (١) مستدک نقل از کتاب ارزش پدر ومادر .
احترام سے پیش آئیں تا کہ کل ہمارے فرزندان بھی ہمارے ساتھ احترام سے پیش آسکیں۔پس اگر ہم دولت مند اور امیر ہو نے کی خواہش رکھتے ہیں تو والدین کے حقوق کو کبھی فرامو ش نہ کریں اور یہ خیال نہ کرے کہ والدین کے حقوق ادا کئے بغیر ہم دولت مند اور امیر بن سکتے ہیں کیونکہ ایسا خیال اور فکر تعلیمات اسلامی سے دور ہے .ماں باپ کے حقوق ادا کئے بغیر کبھی دولت مند نہیں ہو سکتا ہے لہٰذا دنیا میں بہت زحمتوں کے باوجود ہماری دولت میں تر قی نہ ہو نے کا سبب یہ ہے کہ ہم والدین کے حقوق کو ادا نہیں کرتے اور ان کو اپنے بچے اور بیوی کے حد تک عملی میدان میں احترام کے قائل نہیں ہیں کہ اس کا نتیجہ دنیا میں دولت مند ی اور لمبی زندگی سے محرومی ہے ،لہٰذا امام رضا علیہ السلام نے باپ کی اطاعت اور حقوق ادا کرنے کو اس طرح بیان فرمایا ہے”قال الرضا علیک بطا عۃ الاب وبرہ والتو اضع والخضوع والا عظام والا کرام لہ وخفض الصوت بحضرتہ فانّ الاب اصل الا بن والابن فرعہ لولاہ لم یکن لقدرۃ اللّٰہ ابذ لوا لھم الامو ال والجاہ و النفس ”(١)۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)۔ بحار ج١٧ چاپ بیروت.

تم پر باپ کی اطاعت کرنا اور ان سے خوش فتا ری سے پیش آنا اور ان کے سامنے انکسار ی اور ان کو بز رگی کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کے سا منے آ واز بلند نہ کرنا لازم ہے ۔ کیونکہ باپ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ فرزند اس کے شاخہ کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا اگر باپ نہ ہو تا تو خدا اس کو خلق ہی نہ کرتا پس اپنے اموال کو اور مقام ومنزلت کو ان پر فدا کر ۔
د۔ والدین کے احترام میں کامیابی ہر معا شرہ ا ور سو سائٹی کے باشعور افراد کی کو شش یہی رہی ہے کہ ہم اپنے فیلڈ اور شعبہ میں کامیابی سے ہمکنار ہو لیکن کامیابی کے حصول کی خاطر شب وروز تلاش کے باوجود بہت ایسے افراد نظر آتے ہیں کہ جو بر سوں مشقتیں اٹھا نے کے باوجود کا میا بی سے محروم رہ جاتے ہیں کہ شاید جس کی علت یہ ہو کہ ہم نے والدین جیسی عظیم ہستیوں کے احترام کی رعایت نہیں کی ہے جسکا نتیجہ دنیا میں کا میا بی سے محروم اور معا شرہ میں بد نا می کا باعث بنتا ہے کیو نکہ ہم والدین کے نیک نصیحتوں پر عمل کے بجا ئے لاابالی قسم کے افراد کے مشوروں پر چلتے ہیں اور والدین کے حقوق کی رعایت نہیں کرتے کہ جس کا لازمہ دنیا میں ہزاروں زحمتیں اٹھا نے کے باوجود کا میابی جیسی نعمت سے محروم رہنا ہے، چو نکہ جب کو ئی فرزند والدین کی نصیحت اور مشورے پر عمل کئے بغیر ان کو ناراض ہو نے دیتا ہے تو والدین ان کی ناکامیابی دیکھ کر ایک لمبی سی سانس ناراضگی کی حالت میں لیتے ہیں تو وہ عرش تک پہنچتی ہے کہ اس کا نتیجہ فرزند مزید ناکامی اور بربادی میں مبتلا ہوتا ہے۔لہٰذا روایت میں ہے کہ والدین جب اولاد کے حق میں دعا کرتے ہیں تو کبھی خدا اس کو رد نہیں کرتا ہے کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم (ص) نے یوں فرمایا ہے:” اربعۃ لاترد دعوۃ ویفتح لہم ابواب السماء ویصیر الی العرش دعاء الوالد لولدہ والمظلوم علی من ظلمہ والمعمر حتی یرجع والصائم حتی یفطر۔”(١)چار ہستی خدا کی نظر میں اس طرح کے ہیں کہ اگر وہ دعا کرے تو کبھی استجابت سے محروم نہیں ہوتے:١۔باپ فرزند کے حق میں دعا کرے۔٢۔مظلوم ظالم کے خلاف دعا کرے۔٣۔عمرہ انجام دینے والے کی دعا عمرہ سے واپس آنے تک۔٤۔روزہ دار کی دعا افطار کرنے تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١) کتاب ارزش پدر ومادر.

یہ وہ افراد ہیں جن کے لئے خداوندعالم نے رحمتوں کے دروازے کھول رکھے ہیں، تاکہ ان کی فریاد عرش تک پہنچ جائے ۔لہٰذا انسان کی کامیابی اور دنیوی زندگی کو شادابی کے ساتھ گزارنے میں ماں باپ کی بہت بڑی دخالت ہے تب بھی تو دنیا میں ایسے فرزند بھی نظر آتے ہیں کہ والدین کی نیک نصیحتوں او راچھے مشوروں پر نہ چلنے کے نتیجہ میں دنیوی زندگی اوراخروی زندگی دونوں کی سعا دتمند ی سے محروم رہے ہیں لہٰذا قدیم زمانے میں ایک دولت مند کہ جس کا ایک عیاش فرزندتھا اس دولت مند باپ نے اس عیاش بیٹے سے بارہا لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک اور نیک رفتار ی سے پیش آنے کی نصیحت کی مگر اس نے نہیں مانا۔لیکن جب باپ کی موت قریب ہوئی تو باپ نے اس کو اپنے قریب بلایا اور کہنے لگا کہ اے میرے عیاش بیٹے میرا آخری وقت ہے لہٰذا میں تجھے وصیت کرتا ہوں اوراس گھر کے فلاں کمرے کی چابی تیرے حوالے کرتا ہوں کہ جب تو ہر قسم کی منزلت ومقام سے کھوبیٹھے تو اس کمرے کے دروازے کو کھولنا اور اس کی چھت کے ساتھ ایک رسی آویزان کی گئی ہے اس وقت اس رسی کو کھینچ کر اپنے گردن کو لٹکانا تاکہ تو زندگی سے نجات پائے وہ فرزند باپ کے مرنے کے کچھ سالوں بعد ثروت اور دیگر عیاشی کے ضروریات کھوبیٹھا تو باپ کی وصیت یاد آئی۔لہٰذا فورا کمرے کی چابی کھولنے لگا تو دیکھا کہ چھت کے ساتھ ایک رسی آویزان ہے کہ وہ عیاش بیٹا زندگی سے تنگ آچکا تھا لہٰذا فوراً زندگی سے نجات پانے کی خاطر رسی کو مضبوطی سے کھینچ کر گردن سے لٹکانے کی کوشش کی کہ اتنے میں رسی کے ساتھ سونے کی ایک تھیلی چھت سے گرپڑی تو فوراً باپ کی نصیحتوں اور نیک مشوروں کو یاد کرنا شروع کیا اور اپنی بدبختی اور نا کا میا بی کی ملامت شروع کردی اور کہنے لگا کہ میرے باپ میری کا میابی کو کسی حد تک دل سے چاہتے تھے لیکن میں نے ان کی نصیحتو ں پر عمل نہیں کیا نتیجہ خود کشی تک پہنچا لیکن پھر بھی باپ نے مجھے نجات دی (١) ۔لہٰذا روایت میں ایسا جملہ مکر ر آیا ہے کہ الاب اصل وفرعہ ابنہ یعنی باپ علت ہے فرزند معلول ہے کہ معلول کی کا میا بی اور نا کامی علت میں پوشیدہ ہے ۔پس اگر غور کر یں تو معلو م ہو گا کہ ہمیں دنیا میں کا میابی کی طرف لے جانے والے صرف والدین اور انبیا ء اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں لہٰذا انہیں کے نصیحتوں اور مشورں پر چلنا ہمار ی کا میا بی کا سبب بنتا ہے ۔
ز۔ ماں ،باپ پر سختی کی ممانعت ماں ،باپ کے متعلق احکامات میں سے ایک یہ ہے کہ اولاد کا ان پر سختی کرنا فقہی رو سے حرام ہے چاہے ناز یبا الفاظ استعمال کر کے اذیت پہنچائے یا ناشائستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)داستان ہائے شیرین ،ص ١٣٠ .

فعل کے ذریعے ان کو ناراض کرے ،شر عا ًقابل مذمت ہے چنا نچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ابن مہزم نے یوں نقل کیاہے :”عن ابن مھزم قال فلمادخلت علیہ قال لی مبتدأً یا ابامھزم مالک ولخالدہ (یعنی ام) اغلظت فی کلا مھا البار حۃ اما علمت ان بطنھا منزل قد سکنتہ وان حجرہا مھد قد عمر تہ وثدیہا وعاء قد شربتہ قلت بلی قال علیہ السلام فلا تظفہا۔”(١)ابن مہزم نے کہا کہ جب میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو امام علیہ السلام کی نظر مجھ پر پڑ تے ہی فرمایا ۔اے ابن مہز م کل تو اپنی ماں کے ساتھ کسی چیز پر جھگڑا کر رہا تھا اور تو ان کی گفتگو سے کیوں ناراض ہوا کیا تم نہیں جانتے کہ ان کا شکم تمہاری منزل تھی کہ جس میں تو رہا کرتا تھا اور ان کا دامن تیرا گہوار تھا کہ جس میں تو آرام سے لطف اندوز ہوتا تھا اور ان کا دودھ تیر ا کھانا اور پینا کہ جس سے تو شرب ونوش کرتا تھا ۔(ابن مہزم نے کہا ) جی ہاں اس طرح تھا پھر آپ (ص)نے فرمایا پس ان پر سختی نہ کر۔اس حدیث سے والدین کی عظمت اور اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا ماں باپ کو کسی قسم کی سختی اور اذیت پہنچانا شر یعت اسلام میں حرام اور ہر انسان کی نظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١۔ مستدر ک ج ١٥ ص١٩١.

میں مستحق مذمت ہے ۔ نیز اور ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا ہے :”ملعون من سب امہ ”(١)١۔ جو شخص ماں کو دشنام اور گالی دے یا ان کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرے گا وہ خدا کی رحمت سے دور ہے خواہ وہ فعلی اذیت ہو یا قولی، اسلام کی نظر میں کوئی فرق نہیں ہے پس ماں، باپ کی شان میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا موجب عقاب او رنابودی کا سبب ہے ۔اسی طرح روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ ماں باپ کو مارنا بہت ہی شدت کے ساتھ ممنوع قرار دیا گیا ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا:”ملعون ملعون من ضرب والدہ او والدتہ ”(٢)معلون ہے ملعون ہے وہ شخص جو اپنے ماں باپ کو مارے۔
تفسیر وتحلیل:ان روایات سے کئی مطلب کا استفادہ ہوتا ہے:١۔ قول وگفتار کے ذریعہ ماں باپ پر سختی کی ممانعت ۔۔ (١) نہج الفصاحہ .(٢)ارزش پدر ومادر.

٢۔ ان کو گالی دینے کی شدت سے ممانعت کی گئی ہے۔٣۔ ان کو مارنا پیٹنا حرام ہے۔یہ مطالب توضیح طلب ہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف اسی اجمالی تذ کر پر اکتفا کرتا ہوں اگر چہ اخبار ی کتب میں روایات صحیح السند کی شکل میں یا مر سلہ اور مسند کی صورت میں بہت زیادہ ہیں لیکن تحصیلات کے اوقات کو نعمت سمجھ کر اجمالی اشارہ کو کا فی سمجھتا ہوں ۔لہٰذا اگر کو ئی شخص والدین پر سختی سے پیش آیا یا نعوذ بااللہ مارنے پیٹنے کی حد تک پہونچ گیا تو خدا اس کی دولت میں کمی عمر میں کو تا ہی ،دنیوی کا مو ں میں نا کا میابی ،معا شرے میں بد نامی ، اور ہر قسم کی عزت وشرافت سے محروم کرنے کے علاوہ موت کے وقت بہت ہی اذیت اور عالم برزخ میں سختی اور قیامت کے دن حساب وکتا ب کے مو قع پر خسارہ سے دو چار ہو گا پس والد ین کا احترام کرنا اور ان پر ہر قسم کی سختی پہنچانے سے پر ہیز کرنا ، فطری اور عقلی دلیلوں کی چاہت کے باوجود انبیاء اور ائمہ معصومین (ع) کے فرامین کا خلاصہ ہے ۔ لہٰذا اگر آپ ماں باپ پر سختی کریں گے تو کل آپ کی اولاد بھی آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے چنانچہ اس مطلب کو معصوم(ص) نے یوں فرمایا : ”بروا آبائکم تبر ابنا ئکم ”(١)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)اصول کافی.

تم اپنے والدین کے سا تھ نیکی کرو تا کہ کل تمھا رے فرزندان بھی تمہارے ساتھ نیکی کریں
ر۔ والدین کی رضایت میں خدا کی رضایتپورے مسلمانوں کی کو شش یہی رہتی ہے کہ خدا وندعالم ہماری ہر حرکات وسکنات پر راضی ہو اسی لئے طر ح طرح کی زحمتوں کے باوجود فروع دین اور اصول دین کے احکام کے پابند ہو جا تے ہیں تا کہ خدا وند علی الا علی کی رضایت جلب کرنے سے محروم نہ رہیں ،لہٰذاہزاروں روپئے خمس کی شکل میں یا صدقہ اور دیگر وجوہات کو ادا ء کر کے خداکی خوشنودی حاصل کرنے میں سر گرم رہتے ہیں لیکن اگر ہم اسلام کے اصول وضوابط سے تھوڑی سی آگا ہی رکھتے ہوں تو معلوم جائے گا کہ خدا نے اپنی رضایت وخوشنودی اور ناراضگی کو ماں، باپ کی رضایت اور نارضگی میں مخفی رکھا ہے ،جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے :”اول ما کتب علی اللوح انااللّٰہ ولاالہ الا انا من رضی عنہ والد ہ فانا عنہ راض ومن سخط علیہ والدہ فانا علیہ ساخط”(١)یعنی لوح محفوظ پر سب سے پہلے یہ لکھا گیا ہے :میں اﷲ ہوں اور میرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)معراج السعادۃ ص ٨٤ ٣ .

علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کہ اگر کسی پر اس کے ماں باپ خوش ہو تو میں بھی اس پر خوش ہوں لیکن اگر کسی پر اس کے والدین ناراض ہوں تو میں بھی اس سے ناراض ہوں۔.نیز دو سری روایت میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا :”رضاء الر ب فی رضاء الوالدین وسخطہ فی سخطھما”(١)خدا کی رضایت ما ں باپ کی رضایت میں پو شیدہ ہے اور ان کی ناراض گی ماں باپ کی نا راضگی میں مخفی ہے ۔مذ کورہ روایات کے مضمون کے مطابق ایک حکایتبھی ہے جو قابل ذکر ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دن حضرت داؤد علیہ السلام زبور کی تلاوت کررہے تھے اتنے میں اچانک ایک خاص کیفیت اور حالت آنحضرت (ص) پر طاری ہو ئی اور سوچ کرکہنے لکے کہ شائید دنیا میں مجھ سے زیادہ عبادت گذار کوئی اور نہ ہو کہ جب اس طرح سوچنے لگے تو خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی :”اے داؤد اگر اتنی عبا دت سے اپنے آپ کو دنیا میں عابد تر سمجھتے ہو تو اس پہاڑکے اوپر جاکر دیکھو کہ میرا ایک بندہ سات سو سال سے میری عبادت اور مختصر سی کو تا ہی پر مجھ سے طلب مغفرت کررہا ہے جب کہ وہ کو تا ہی میر ی نظر میں جرم نہیں ہے چنا نچہ جب حضرت داؤد نے اس پہاڑپر جا کر دیکھا کہ ایک عابد عبادت اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ١)کنز العمال ج ١٦ ص ٨٠ ٣ نقل از اخلاق زن وشوہر .

رکوع وسجود کے نتیجے میں بہت ہی کمزور ہوچکا ہے اورنماز میں مشغول ہے تھوڑی دیر جناب داؤد منتظر رہے جیسے ہی اس عابد نے نماز تمام کی حضر ت داؤد(ع) نے اس کو سلام کیا عابد حضرت (ع) کے سلام کے جواب دینے کے بعد پوچھنے لگا کہ تو کون ہے ؟حضرت داؤد نے فر مایا کہ میں داؤد ہوں کہ جیسے ہی داؤد کا نام سنا تو کنے لگا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو داؤد ہے تو میں تیر ی ترک اولی کی وجہ سے تیرے سلام کا جواب نہیں دیتا لہٰذا اس پہا ڑ پر ہی خدا سے معا فی ما نگیں ۔کیو نکہ میں ایک دن گھر کی چھت پررفت آمد کرنے کے نتیجہ میں میری ما ں پر کچھ خاک آپڑی تھی کہ اسی کی معافی کے لئے سات سو سال سے میں اس پہاڑ پر خدا سے طلب مغفرت کررہا ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میری ماں مجھ سے راضی ہو ئی ہے یا نہیں ؟(١)پس والدین کی عظمت اور بزرگی کی وجہ سے خدانے اپنی رضایت کو ان کی رضایت میں مخفی رکھا ہے اگر خدا کی رضا یت چاہتے ہو تو والدین کے احترام اور حقوق کو ادا کرکے ان کو راضی کریںکہ اس کا نتیجہ خو شنودی الہی کا حصول ہے دنیا وآخرت میں سعادت سے مالا مال ہو نے کا سبب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔١۔ الدین فی نصص ج٣ ،٢٣نقل از ارزش درومادر .

۰۵ مارس ۲۳ ، ۲۲:۳۷
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

قرآن فہمی

MS vfv

بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ
پہلی تقریر
سُوْرۃ اَنْزَلْنَا ها وَفَرَضْنَا ها وَاَنْزَلْنَا فِیْهآ اٰیَاتٍمبِیّنَاتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔اَلزَّانِیَة فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْ همَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهمَا رَأفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰه اِنْ کُنتُمْ تُوءْمِنُوْنَ بِاللّٰه وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْهدْ عَذَابَهمَا طَآئِفَة مِّنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اَلزَّانِیْ لاَیَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَةً اَوْمُشْرِکَةً وَّالزَّانِیَةُ لاَ یَنْکِحُهآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکُ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُوءْمِنِیْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۱ تا ۳)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے اور تم بیدار و آگاہ ہو جاؤ۔ اس سورت کے آغاز میں یہ جو فرمایا جا رہا ہے: ”یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے“ تو قرآن مجید میں فقط یہی ایک سورت ہے جس کا آغاز اس آیت سے ہوا ہے جبکہ دوسری بہت سی سورتوں کا آغاز اس آیت ”ہم نے کتاب نازل کی“ سے ہوا ہے۔ یعنی ان آیات میں تمام قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت میں بیان کردہ مفاہیم و مطالب کی جانب خدا کی خصوصی توجہ ہے۔ آپ سورت کے معنی کو جانتے ہیں۔ قرآنی آیات کا وہ مجموعہ جوایک ”بسم اللہ“ سے شروع ہو کر دوسری ”بسم اللہ“ سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، اسے سورت کہتے ہیں۔ قرآن کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جن میں فصل، باب او رحصے نہیں ہوتے۔ قرآن کو مختلف سورتوں کے اعتبار سے ہی تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سورت کا آغاز ایک ”بسم اللہ“ سے ہوتا ہے اور بعد والے مجموعہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ پہلی سورت ختم ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ لفظ ”سورة“ اس لفظ سے مشتق ہوا ہے جس سے لفظ ”سور“ مشتق ہوا ہے۔ شہروں کے گرد بنائی جانے والی فصیل جو شہروں کو گھیرے رہتی، وہ ایک دیوار کی صورت میں ہوتی اور پورے شہر یا قصبہ یا دیہات پر احاطہ کئے ہوئے ہوتی تھی۔ اسے عربی زبان میں ”سور“ کہا جاتا تھا۔ ”سورہ البلد“ ایک بلند دیوار ہوتی جسے کسی شہر کے گردبناتے تھے۔ گویا ہر سورت ایک حصار کے اندر واقع ہے۔ اسی لئے اسے سورہ کہا جاتا ہے۔ پیغمبرِ اکرم نے بنفس نفیس قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ کے بعد دوسرے مسلمانوں نے قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہو، بلکہ شروع سے ہی قرآن سورتوں کی صورت میں نازل ہوا۔
اس سورت کی پہلی آیت خصوصاً سورة انزلنا ھا“ اور ا س کے بعد کے الفاظ ”فرضناھا“ اس مطلب کو ادا کر رہے ہیں کہ عفت و پاکدامنی سے متعلق مسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی دورِ حاضر کے انسان کی سوچ کے بالکل برعکس جو جنسی تعلقات کو سہل و آسان بنانے اور انہیں کم اہمیت شمار کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اس نے غلط طور پر اس کا نام آزادی رکھا ہوا ہے اور وہ اپنی اصطلاح میں ”جنسی آزادی“ کی جانب گامزن ہے۔ قرآن پاکدامنی کے حریموں، بے عفتی کی سزاؤں کے عنوان سے جو مسائل بیان کرتا ہے اور جو کچھ وہ ایسی پاکدامن عورتوں کے دامن کو داغدار کرنے کی سزاؤں کے عنوان سے بیان کرتا ہے جن پر ناروا تہمتیں لگائی گئی ہوں اور جو احکام وہ شادی کرنے کی ترغیب دینے کے باب میں بیان کرتا ہے، الغرض پاکدامنی سے مربوط مسائل کے بارے میں اسلام جو کچھ بیان کرتا ہے تو وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مسائل بہت ضروری ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ عصرِ حاضر کی آفتوں میں سے ایک آفت یہی ہے کہ پاکدامنی کے اصول اور جنسی امور میں تقویٰ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔
سُوْرَة اَنْزَلْنَا ها“ یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس میں بیان شدہ احکام کی مراعات کو واجب قرار دیا ہے، یعنی ہم ان کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھتے۔ ”وَاَنْزَلْنَا فِیهآ اٰیَاتٍمبیِّنَاتٍ“ اور ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں۔ اس آیت میں جو لفظ ”آیات“ آیا ہے تو ممکن ہے اس سے سورہ نور کی تمام آیات مراد ہوں، یا جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں تحریر کیا ہے، ان سے مراد وہ آیات ہیں جو اس سورت کے وسط میں واقع ہیں اور حقیقت میں یہ آیات اس سورہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیات جنسی آداب و اخلاق کے متعلق ہیں جبکہ وہ آیات اصولِ عقائد کے متعلق ہیں۔ ہم ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبت کو بعد میں بیان کریں گے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے کہ ہم نے اس سورت کونازل کیا ہے اور اس میں بیان کردہ احکام جو کہ جنسی اخلاق و آداب کے متعلق ہیں، لازم قرار دیئے ہیں۔
انسان کی آگاہی و بیداری کی خاطر ہم نے اس میں واضح آیات نازل کی ہیں، ”لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ“ تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے۔ تم آگاہی حاصل کرو اور غفلت سے نکل جاؤ۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ تفکر اور تذکر کے مابین فرق ہے۔ تفکراس جگہ ہوتا ہے جہاں انسان کسی مسئلے کو بالکل ہی نہ جانتا ہو، اسے سرے سے ہی نہ جانتا ہو او روہ مسئلہ اسے سمجھا دیا جائے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر تفکر کی بات کی ہے۔ تذکر ان مسائل میں ہے جن مسائل کے صحیح ہونے کو انسان کی فطرت جانتی ہو لیکن اسے یاد اور توجہ دلانے کی ضرورت ہو۔ قرآن کو خصوصاً ”تذکر“ کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔ شاید اس سے انسان کا احترام مقصود ہے۔ ہم تمہیں ان مسائل کی جانب متوجہ کرتے ہیں، یعنی یہ ایسے مسائل ہیں کہ اگر آپ خود بھی غور کریں تو انہیں سمجھ لیں گے۔ لیکن ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں اور ان کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
بعد والی آیت فحشاء یعنی زنا کی سزا سے متعلق ہے۔ خدا کا فرمان ہے۔
اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهمَارَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّٓه اِنْ کُنْتُمْ تُوٴْمِنُوْنَ بِاللّٰه وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْهدْ عَذَابَهمَا طَآئِفة مِّنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔“ (سُورہٴ نُور، آیت ۲)
ان آیات میں تین مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ جو بھی زنا کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت، اسے سزا ملے گی اور اس کی سزا قرآن نے ”ایک سو کوڑے“ معین کر دی ہے۔ سو کوڑے زانی مرد اور سو کوڑے زنا کرنے والی عورت کومارے جانے چاہئیں۔
دوم یہ کہ مومنین کو آگاہ کر رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سزا کے وقت تم پر احساسات غالب آ جایں۔ مباوا تمہیں ان پر رحم آئے اور تم کہو کہ سو کوڑے لگنے سے انہیں تکلیف پہنچے گی، لہٰذا انہیں پوری سزا نہ دی جائے۔ کیونکہ یہ ترس کھانے کا مقام نہیں ہے قرآن کہتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر جذبات غالب آ جائیں اور تم اللہ کی اس حد کو جاری کرنے میں سستی سے کام لینے لگو۔ عصرِ حاضر کی اصطلاح کے مطابق تم یہ نہ سمجھو کہ یہ ایک ”غیرانسانی“ کام ہے۔ نہیں، بلکہ یہ ایک ”انسانی“ عمل ہے۔
سوم یہ کہ سزا مخفیانہ طور پر نہ دی جائے کیونکہ اس سزا کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔ مومنین کا ایک گروہ سزا کے وقت لازمی طور پر حاضر و ناظر ہونا چاہئے جو اسے دیکھے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس حکم کو نافذ کیا جائے تو اسے اس طور پر نافذ کرنا چاہئے کہ تمام لوگوں کو پہت چل جائے کہ فلاں عورت یا فلاں مرد پر زنا کی حد جاری ہوئی ہے۔ اس حکم کو مخفی طور پر نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر نافذ کرنا چاہئے۔
اب ہم پہلے مطلب کے متعلق چند باتیں بیان کرتے ہیں جو زنا کی سزا کے حکم کے بارے میں ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں اس موضوع کے متعلق بحث کی گئی ہے تو آپ دیکھیں گے گے کہ وہ لوگ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ زنا کی سزا دینے کی وجہ…ان کی اصطلاح میں…”مرد کی حکمرانی“ ہے۔

 جن زمانوں میں مرد کو خاندان کا حاکم سمجھا جاتا رہا، یعنی مرد گھر کا مالک ہوتا جبکہ عورت کو کوئی حق حاصل نہ ہوتا۔ وہ مرد کے پاس بہرہ برداری کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی۔ مرد اپنے آپ کو بیوی کا مالک جانتا تھا۔ جب کوئی عورت زنا کرتی تو اس کا شوہر یہ سمجھتا کہ اس نے ایک ایسی چیز دوسرے مرد کی تحویل میں دی ہے جو اس کا حق تھا۔ پس اس بناء پر زنا کی سزا برقرار ہوئی۔ واضح سی بات ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ اسلام میں زنا کی سزا عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے، مرد کو بھی اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے اور عورت کو بھی۔ ”اَلزَّانِیةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۔“ صراحت کے ساتھ یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ زناکار مرد اور زنارکار عورت دونوں کو سزا ملنی چاہئے۔ اگر مرد کو زنا سے نہ روکا گیا ہوتا اور فقط عورت کو روکا گیا ہوتا۔ شاید دنیا کے بعض علاقوں میں ایسے قوانین موجود تھے جن کی رو سے فقط عورت کو زنا کرنے کا حق حاصل نہیں تھا…تو اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ ”مرد کی حکمرانی“ ہے۔ لیکن اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو زنا سے منع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی نفسانی خواہشات کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتا ہے۔ شادی نام ہے بعض فرائض کے ادائیگی کے پابند ہونے اور ذمہ داریوں کو سنبھالنے ک ۔ عورت بھی اپنی جنسی خواہش کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتی ہے، البتہ بعض فرائض کی ادائیگی کی پابندی اور بعض ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ۔ پس مرد کو شادی کے بغیر اپنی جنسی جبلت کو پورا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اور عورت کو بھی ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ بنا بریں زنا کے حرام ہونے کا مسئلہ عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عورت اور مرد دونوں پر یکساں طور پر حرام ہے۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ کہ آج کے یورپی معاشرے میں عورت اور مرد کو فقط اس وقت زنا سے منع کیا گیا ہے جب وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق ”محصن“ یا محصنہ“ ہوں۔ یعنی شوہر والی عورت اور شادی شدہ مرد کو زنا کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جس مرد کی بیوی نہ ہو یا جس عورت کا شوہر نہ ہو ان کے لئے زنا کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ جس مرد کی بیوی نہ ہو فطرتاً اسے شوہر والی عورت کے ساتھ زنا کرنے کا حق نہیں پہنچتا اور جس عورت کا شوہر نہ ہو اسے شادی شدہ مرد سے زنا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن جس عورت کا شوہر نہ ہو اور جس مرد کی بیوی نہ ہو ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس کے کیوں قائل ہیں؟ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شادی شدہ مرد کے لئے زنا حرام ہونے کا فلسفہ یہ ہے کہ اس نے اس فعل کے ذریعہ اپنی بیوی سے خیانت کی ہے اور اس کی حق تلفی کی ہے۔
اس لئے جس مرد کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اس پر کسی عورت کا حق نہیں۔ اسی طرح جس عورت کا شوہر نہ ہو اس پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ اس لئے ان کے لئے زنا کرنا جائز ہے۔
لیکن اسلام نے اس حوالے سے دو باتیں کی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی عورت اور کسی مرد کو نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کا حق حاصل نہیں ہے، چاہے مرد بیوی والا ہو یا نہ ہو، چاہے عورت شوہر والی ہو یا نہ ہو۔ اسلام خاندان کی اہمیت کا اس حد تک قائل ہے کہ وہ نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ فقط گھریلو زندگی کی صورت میں ہی جنسی خواہش کی تسکین کی اجازت دیتا ہے اور گھریلو زندگی تشکیل دیئے بغیر کسی صورت میں بھی عورت و مرد کو ایک دوسرے سے لذت اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
دوسری بات شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مرد کی سزا سے متعلق ہے۔ اسلام اس مقام پر دو سزاؤں کا قائل ہے۔ اس کی سزا زیادہ شدید ہے۔ ایک کلی سزا یعنی سو کوڑے اور دوسری رجم یعنی سنگساری ہے۔
خاندان کی اساس اور خاندانی ماحول کو مستحکم کرنے والے عوامل میں سے ایک یہی مسئلہ ہے اور موجودہ یورپی دنیا میں گھریلو زندگی کی اساس متزلزل و کمزور ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں ہم اپنے معاشرے میں یورپین باشندوں کی جتنی زیادہ پیروی کریں گے اسی قدر ہماری گھریلو زندگی متزلزل ہو گی۔ ہمارا معاشرہ جب تک صحیح معنوں میں اسلام پر عمل کرتا رہا یعنی شادی سے قبل واقعاً لڑکوں کے لڑکی یا عورت کے ساتھ تعلقات نہیں ہوا کرتے تھے۔ عصر حاضر کے یورپین لوگوں کی اصطلاح میں جب تک لڑکوں کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہوا کرتی تھی اور لڑکیوں کے بوائے فرینڈز نہیں ہوا کرتے تھے، اس وقت شادی لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک آرزو شمار ہوتی تھی۔ لڑکا جب پندرہ سال کا ہو جاتا ہے تو اسے شادی کرنے کا فطری احساس ہوتا اور لڑکی کے دل میں بھی شادی کی آرزو جنم لیتی۔ لڑکے کا شادی کی آرزو کرنا ایک فطری بات تھی کیونکہ وہ عورت سے لذت حاصل کرنے کی پابندی سے شادی کے ذریعہ ہی نجات حاصل کرکے عورت سے لذت حاصل کرنے کی آزادی پاتا تھا۔ اس وقت ”شبِ زفاف کم از صبح پادشاہی بنود“ یعنی سہاگ رات پادشاہت کی صبح سے کمتر نہیں تھی کیونکہ نفسیاتی طور پر لڑکے کو اس لذت سے ہمکنار کرنے والی سب سے پہلی عورت اس کی بیوی ہوتی تھی اور لڑکی کو بھی اس کا شوہر ہی پابندی سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکی اور لڑکا جنہوں نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ ہوتا اور دیکھنے کے بغیر آپس میں شادی کر لیتے وہ آپس میں بہت زیادہ محبت کرنے لگتے۔
(میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو نہ دیکھنا کوئی درست بات ہے۔ نہیں۔ اسلام نے دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے نہ بھی دیکھا ہوتا اور ان کو ایک دوسرے کا وصال نصیب ہوا تب بھی وہ مرتے دم تک آپس میں محبت کرتے تھے)۔
لیکن یورپین تہذیب لڑکے کو اجازت دیتی ہے کہ جب تک کنوارا ہے تب تک وہ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور لڑکی بھی جب تک کنواری ہے تب تک اسے جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکا شادی کے بعد اپنے آپ کو پابند محسوس کرتا ہے اور لڑکی بھی محسوس کرتی ہے کہ وہ شادی کے بعد آزادی سے محروم ہو چکی ہے۔ شادی سے قبل اسے آزادی تھی۔ وہ جس سے چاہتی تعلقات قائم کر سکتی تھی۔ اب شادی کے بعد وہ فقط ایک مرد تک محدود ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکا شادی کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے: ”میں نے آج سے اپنا ایک نگہبان مقرر کر لیا ہے“۔ لڑکی کا شوہر اس کا چوکیدار بن جاتا ہے یعنی وہ آزادی سے پابندی کی جانب آتے ہیں۔
مغربی تہذیب میں آزاد کو پابند بنانے کا نام شادی ہے۔ شادی نام ہے آزادی سے پابندی کی جانب آنے کا۔ جبکہ اسلامی تہذیب میں شادی نام ہے پابندی سے آزادی کی جانب آنے کا۔ جس شادی کی بنیاد نفسیاتی طور پر پابندی سے نجات پا کر آزادی سے ہمکنار ہونے پر ہو وہ اپنے دامن میں استحکام لئے ہوتی ہے اور جس کی اساس آزادی سے پابندی کی جانب آنے پر استوار ہو اس میں استحکام نہیں ہوتا۔ یعنی جلدی ہی اس شادی کی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جس لڑکے نے بیسیوں بلکہ سینکڑوں لڑکیوں کا تجربہ کیا ہو اور جس لڑکیوں نے بیسیوں اور سینکڑوں لڑکوں کا تجربہ کیا ہو تو کیا وہ لڑکی یا لڑکا کسی ایک کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے؟ کیا انہیں پابند کیا جاسکتا ہے؟ اس لئے اسلام میں زنا حرام ہونے کی وجہ فقط یہی نہیں کہ ہے کہ یہ صرف مرد کا حق ہے اور وہ فقط عورت کا حق ہے کہ آپ کہیں کہ غیرشادی شدہ مرد پر ابھی تک کسی عورت کا حق نہیں ہے اور کنواری لڑکی پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا جو آدمی مرتے دم تک شادی نہیں کرنا چاہتا وہ مطلق العنان ہو اور جو عورت عمر بھر شادی نہیں کرنا چاہتی وہ بھی مطلق العنان ہو۔ اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یا تو سرے سے ہی لذت حاصل کرنے کا خیال دل سے نکال دو یا شادی کی ذمہ داریاں قبول کرو۔ اس لئے اسلام زنا کی سزا پر بہت زور دیتا ہے۔ اور جس زنا میں فقط زنا کا پہلو ہو اور اس کے علاوہ اس میں بیوی یا شوہر کے حقوق پائمال نہ ہوتے ہوں تو ایسا زنا کرنے پر بھی کوڑوں کی سزا دیتا ہے۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جو طبعاً جنسی خواہش کے دباؤ کا شکار بھی نہیں ہوتے اور فقط ہوسبازی کی خاطر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں، اسلام ان کو بھی سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلام کس حد تک ان مسائل کو اہمیت دیتا ہے۔ یورپین لوگ پہلے تو یہ کہتے تھے کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے علاوہ دوسروں کے لئے زنا پر پابندی نہیں ہے۔ مگر ”رسل“ کا کہنا ہے کہ اگر زنا زخم کا موجب ہو تو اس صورت میں اسے جرم شمار کیا جائے گا۔ اگر زخم کا باعث نہ ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی تدریجاً یہ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے کہ ”رسل“ نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے لئے بھی زنا کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ شادی شدہ عورت کا ایک دوست بھی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہو، یعنی ایک مرد اس کا شوہر ہو اور دوسرا اس کا محبوب؟ محبت اس کے ساتھ کرے اور بچے شوہر کے گھر میں جنم دے۔ لیکن اس بات کا عہد کرے کہ اپنے محبوب کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے وقت مانع حمل دوائیاں استعمال کرے گی۔
فقط خود ”رسل“ کو ہی اس بات پر یقین آتا ہو گا! وگرنہ ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو عورت کسی دوسرے مرد سے محبت کرتی ہو وہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے فقط اپنے شوہر سے حاملہ ہو گی اور صرف اپنے شوہر ہی کے بچے کو جنم دے گی، کیونکہ ہر عورت کا دل چاہتا ہے کہ وہ ایسا بچہ پیدا کرے اور اس کی آنکھوں کے سامنے رہنے والا بچہ جو ہو وہ اس مرد کی نشانی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہے، اس مرد کی نشانی نہ ہو جس سے اسے نفرت ہے۔ تو ایسی صورتِ حال میں اس بات کی کیا ضمانت ہو سکتی ہے کہ جس مرد سے اسے محبت ہے اس سے حاملہ نہیں ہو گیاور اس کے نطفہ سے پیدا ہونے والے بچے کو شوہر کا بچہ نہیں کہے گی۔
گویا قرآن نے اس جانب خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ وہ کہتا ہے ۔ ”اَنْزَلْنَا ها وَفَرَضْنَا ها“ ، ہم نے ان کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اٹل قوانین ہیں۔ زمانہ کے تقاضے ان کو بدل نہیں سکتے۔ یہ انسانی زندگی کے تغیر ناپذیر اصول ہیں اور انسانی زندگی کے اصولوں کا ایک حصہ ہیں۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے: وَلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهمَا رَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰه“۔ دوبارہ یہاں قرآن زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نرمی و درگزر کرنے کا مقام نہیں ہے۔ جب زنا ثابت ہو جائے تو پھر تمہیں درگزر کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ بعد والے جملہ میں خصوصی طور پر فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ زناکار مرد اور عورت پر حد جاری کرنے کے حکم کو بند کوٹھڑیوں میں اور مخفی طور پر انجام دو۔ ضروری ہے کہ لوگوں کی موجودگی میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس حکم کو نافذ کیا جائے، اور اس کی خبر ہر طرف پھیل جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اسلام پاکدامنی کے مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ تعزیرات کا نفاذ معاشرے کی تربیت اور اسے ادب سکھانے کے لئے ہوتا ہے۔
اگر کوئی عورت زنا کرے اور اسے مخفی طور پرچاہے تختہ دار پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے، تب بھی معاشرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اگرچہ صدر اسلام میں ایسے واقعات بہت کم پیش آئے۔ چونکہ ان قوانین کو عملی جامہ پہنایا جاتا تھا اس لئے زنا بہت کم ہوتا تھا…تاہم اگر کبھی ایسا ہوتا تو اعلانِ عام کیا جاتا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ یہ کہا جائے کہ ”اَلْجَاهلُ اِمَّا مُفْرِط اَوْ مُفَرِّط“ کے مطابق مغربی دنیا میں ان آخری دو تین صدیوں سے قبل کہ جب اس میں کلیسا کا قانون حکم فرما تھا تو جنسی تعلقات کو کم کرنے میں افراط سے کام لینے کی کوشش کی گئی۔ مغربی دنیا بعض مسائل میں اسلام پر اعتراضات کرتی تھی۔ کلیسیا کے قانون کے مطابق جنسی تعلقات چاہے اپنی بیوی سے ہی کیوں نہ برقرار کئے جائیں ان کو ایک پلید کام سمجھا جاتا تھا۔ ان کی نظر میں عورت ذاتاً ہی ایک پلید چیز تھی اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کو بھی ایک کثیف عمل گردانا جاتا تھا۔ اس لئے پارسا، پاک و منزہ افراد اور وہ افراد جو بلند روحانی مقامات تک پہنچنے کی لیاقت و صلاحیت رکھتے تھے ایسے افراد ہوتے تھے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت کالمس نہ کیا ہوتا اور کسی عورت سے ہمبستری نہ کی ہوتی۔
پوپ کا انتخاب ایسے افراد میں سے ہوتا (اور اب بھی اسی طرح کیا جاتا ہے) جو شادی کے بغیر عمر بسر کرتے…وہ لوگ درحقیقت تجرد کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدس منصب کی اہلیت فقط ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت سے تعلقات قائم نہ کئے ہوں۔ البتہ ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
یہی افراد بعد میں کشیش وکارڈینل کا رتبہ پاتے ہیں اور بعض پوپ کے منصب تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ تو شادی کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اگر ہم اکثریت سے کہیں کہ تجرد کی زندگی بسر کریں تو وہ زنا جو کہ زیادہ پلید ہے، کے مرتکب ہوں گے اور جنسی عمل کا زیادہ ارتکاب کریں گے۔ اس لئے وہ ”دفع افسد بہ فاسد“ یعنی زیادہ پلید سے بچنے کے لئے کم پلید کے ارتکاب کے عنوان سے شادی کی اجازت دیتے تھے۔
اس کے برعکس اسلام تجرد کو برا سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”جب غیرشادی شدہ پیشاب کرتا ہے تو زمین اس پر لعنت بھیجی ہے۔“ اسلام شادی کو مقدس قرار دیتا ہے۔
قرآن میں لفظ ”محصِن“ اور ”محصَن“ دو معنوں میں استعمال ہواہے۔ بعض مقامات پر شادی شدہ عورت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ عورت جو حصار کے اندر واقع ہو اور بعض مقامات پر اس لفظ کو پاکدامن عورت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے چاہے وہ عورت کنواری ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہاں اسے دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
جو لوگ رمی یعنی تیراندازی کرتے ہیں، پاکدامن عورتوں کو تہمت کے تیر کا نشانہ بناتے ہیں، بے عفتی کی باتیں ان سے منسوب کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے، ان پر حد جاری کی جانی چاہئے۔
اسلام کسی بھی دعوے کو بدونِ دلیل قبول نہیں کرتا۔ لیکن بعض دعوے ایسے ہوتے ہیں جن کو فقط ایک شخص کے کہنے سے ہی قبول کر لیتا ہے چاہے وہ ایک فرد عورت ہی کیوں نہ ہو، مثلاً کسی عورت کے اپنے بارے میں بیان کردہ زنانہ مسائل۔ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو چونکہ ایامِ حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے اس لئے عورت سے پوچھا جاتا ہے کہ تم حیض کی حالت میں ہو یا حیض سے پاک ہو؟ اگر کہے کہ حیض سے پاک ہوں تو اس کی بات قبول کی جاتی ہے اور اگر کہے کہ یہ اس کے حیض کے ایام ہیں تب بھی اس کی بات تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اسے گواہ پیش کرنے کو نہیں کہا جاتا بلکہ اس کی اپنی بات ہی قبول کی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر مثلاً مال کے متعلق لڑائی جھگڑوں میں ضروری ہے کہ دو مردوں کو گواہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن جہاں ناموس کے احترام کا مسئلہ ہو، جہاں عزت و ناموس کے داغدار ہونے کی بات ہو، وہاں اسلام کہتا ہے کہ دو عادل گواہ بھی کافی نہیں ہیں۔ اگر دو ایسے عادل گواہ جن کے پیچھے لوگ نما زپڑھتے ہیں، حتیٰ کہ اگر ایسے دو گواہ جن کی لوگ تقلید کرتے ہیں، وہ بھی گواہی دیں کہ ہم نے فلاں عورت کو اپنی آنکھوں سے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اسلام کہتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ تم دو فرد ہو۔ اگر تین افراد بھی اس بات کی گواہی دیں تب بھی اسلام اس گواہی کو کافی نہیں سمجھتا۔ اگر چار گواہ حاضر ہو کرگواہی دیں تو اس وقت اسلام عورت کو مجرم قرار دیتا ہے اور اس گواہی کو کافی جانتا ہے۔
ممکن ہے آ پ کہیں کہ اگر امرِ واقعہ یہی ہو تو پھر زنا ثابت ہی نہیں ہو گا۔ چار عادل گواہ کہاں سے آئیں جو گواہی دیں کہ فلاں عورت نے زنا کیا ہے؟ کیا زنا کے مسئلہ میں اسلام کی بنیاد تجسس و تحقیق اور تفتیش پر استوار ہے؟ جب اسلام کہتا ہے چار شاہد، تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ تجسس و تحقیق کی جائے تاکہ آپ کہیں کہ ان دشوار شرائط کی وجہ سے تو ایک لاکھ واقعات میں سے ایک مرتبہ بھی اس طرح نہیں ہو گا کہ چار عادل گواہی دیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ زنا بہت کم ثابت ہو، اگر گواہ نہیں آتا تو نہ آئے۔ اگر ہزار زنا کئے جائیں اور وہ مخفی رہیں تو اسلام ان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن اگر کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو اسلام ہرگز اسے برداشت نہیں کرتا اور اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ زنا واقع ہو اور اس مقصد کو وہ گواہی اور سزا کے ذریعے حاصل نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس نے اس مقصد کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کئے ہیں۔ اگر اسلام کی فردی تربیت اور معاشرتی قوانین پر عمل کیا جائے تو زنا کبھی بھی رونما نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ جب زنا واقع ہو جائے تو اس کی سزا دی جائے اور سزا کے ذریعے اسے روکا جائے۔
ہاں اسلام بھی سزا کا قائل ہے جن لوگوں پر تربیت کا اثر نہیں ہوتا انہیں جان لینا چاہئے کہ ان کے لئے کوڑے کھانے، بعض صورتوں میں قتل ہونے اور بعض صورتوں میں سنگساری کے ذریعے قتل ہونے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ الغرض ہم نے کہا ہے کہ چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور گواہ کے لئے گواہی دینا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھے لیکن باقی تین آدمی موجود نہ ہوں جو اس کے ساتھ گواہی دیں تو اسے خاموش ہی رہنا چاہئے اور اگر دو آدمی بھی دیکھیں تو انہیں بھی کسی کے سامنے اس واقعہ کا ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ اگر تین آدمی بھی دیکھیں تو ان کو بھی اپنا منہ بند کرکے رکھنا چاہئے۔ اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ ”وہ اپنا منہ بند کرکے رکھیں“ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر وہ گواہی دیں تو ان سے فقط یہ کہا جائے گا کہ تمہاری گواہی کافی نہیں، اور چونکہ تم نے گواہی دی ہے لیکن اسے تم ثابت نہیں کر سکے، اس لئے تم قاذف (تہمت لگانے والے ہو)، تم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اسی کوڑے کھائے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور چار گواہ پیش نہ کریں تو وہ اگرچہ سچے ہی کیوں نہ ہوں ان کو اسی کوڑے مارے جائیں کیونکہ یہ کہہ کر انہوں نے ایک عورت پر تہمت لگائی ہے۔ کیا یہ ایک جسمانی سزا ہے؟ نہیں! یہ ایک معاشرتی سزا بھی ہے۔ ”وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهمْ شَهادَةً اَبَدًا“ اور پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کرو۔ پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے، ان کو معاشرتی سزا بھی ملنی چاہئے یعنی اس دن سے ہی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے ایک پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی ہے، جسے وہ ثابت نہیں کر سکے۔
تیسری سزا ”اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ“ یہ فاسق ہیں۔ اس مقام پر مفسرین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ”اُولٰئِکَ همُ الْفَاسِقُوْنَ“ وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهمْ شَهادَة اَبَدًا“ سے الگ کوئی سزا ہے یا وہی ہے، یعنی یہ دونوں ایک ہی سزا ہیں؟ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ دونوں مجموعاً ایک ہی سزا ہے۔ یعنی ”اُولٰئِکَ همُ الْفَاسِقُوْنَ“ علت ہے ”وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهمْ شَهادَة اَبَدًا“ کی۔ یعنی یہ اس تہمت کی وجہ سے فاسق ہو گئے ہیں۔ اور چونکہ فاسق ہو گئے ہیں اس لئے ان کی شہادت قابل قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے۔ مثلاً اب طلاق کا صیغہ ان کے پاس نہیں پڑھا جا سکتا۔ ان کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اگر وہ مجتہد ہوں تو ان کی تقلید جائز نہیں کیونکہ ان سب کاموں میں عدالت شرط ہے۔ اس بناء پر ان دونوں کا مجموعہ ایک ہی سزا ہے۔
لیکن بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ دو سزائیں ہیں، ایک سزا تو یہ ہے کہ ان کی گواہی قبول نہیں اور دوسری سزا یہ ہے کہ یہ لوگ فاسق ہو گئے ہیں۔ او رچونکہ فاسق ہیں اس لئے فسق کے تمام آثار ان پر مترتب ہوں گے اور یہ قابل تفکیک ہیں۔
جو گواہ اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر سکا اگر وہ توبہ کر لے تو اس کا فسق ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی پھر ہم اس کو عادل قرار دیں گے، اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے، اگر وہ مجتہد ہو اور علمی اعتبار سے اس کی تقلید جائز ہو تو اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ مجتہد ہو تو قاضی بن سکتا ہے (کیونکہ قاضی بھی عادل ہونا چاہئے) لیکن اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی کیونکہ وہ ایک الگ سزا ہے اسی لئے بعض مفسرین کی رائے میں ایسے شخص کی گواہی قبول نہ ہونے کی وجہ اس کا فسق نہیں ہے۔ یہ ایک جداگانہ سزا ہے۔ اس کا فاسق قرار دیا جانا اسلام کی نظر میں ایک سزا ہے اور اس کی گواہی کا قبول نہ کیا جانا دوسری سزا ہے۔
بعد والی آیت کا معنی بھی اسی سے واضح ہو جاتا ہے۔ جس میں اللہ کا فرمان ہے کہ ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْمبَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰه غَفُوْرُ رَّحِیْمُ “ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں پس اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا“ کے استثناء کے متعلق پہلی نظر میں تین احتمالات دکھائی دیتے ہیں۔
ایک یہ کہ اگر کوئی گواہ کسی عورت پر تہمت لگانے کے بعد اس کو ثابت نہ کر سکے اور توبہ کرے تو ہم کہیں کہ چونکہ اس نے توبہ کر لی ہے اس لئے اسے کوڑے نہ لگائے جائیں، اس کی گواہی بھی قبول کی جائے اور وہ فاسق بھی نہیں ہے لیکن کسی نے بھی اس احتمال کو ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اگر کسی شخص نے کسی عورت پر فقط تہمت لگائی ہو اور پھر اسے ثابت نہ کر سکا ہو تو یہی بات اسے کوڑے لگائے جانے کے لئے کافی ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ اگر کوئی توبہ کرے تو اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی اور اسے فاسق بھی شمار نہیں کیا جائے گا، یعنی تمام معاشرتی پابندیاں اس پر سے اٹھا لی جائیں گی اور اس کی سابقہ حیثیت برقرار رہے گی۔
تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس کی دوسری سزا ہمیشہ کے لئے ہے، یعنی اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے اور ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا“ دوسری عبارت سے استثناء ہے۔ یعنی اسے دوبارہ یہ حیثیت مل جاتی ہے کہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ قاضی بھی بن سکتا ہے لیکن اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ اور بعید نہیں کہ یہ تیسرا احتمال ہی درست ہو یعنی ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدَ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا“ استثناء ہے ” اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَسِقُوْنَ “ کا۔ اس کے بعد آیت ہے۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّهمْ شُهدَآءُ اِلاَّ اَنْفُسُهمْ فَشَهادَة اَحَدِهمْ اَرْبَعُ شَهادَاتٍمبِاللّٰه اِنَّه لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ وَالْخَامِسَة اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰه عَلَیه اِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۶، ۷)
یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر لازم ہے کہ چار گواہ پیش کرے۔ لیکن اگر وہ چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ چپ رہے۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا اگر چار گواہ موجود ہوں تو پھر وہ عدالت میں آ کر گواہی دے کہ میری بیوی نے زنا کیا ہے؟ جب تک وہ چار گواہ تلاش کرے گا تب تک وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکے ہوں گے۔ اگر شوہر کے علاوہ کوئی اور گواہ ہوتا تو اس سے کہا جاتا کہ چونکہ اس واقعہ کے چار گواہ نہیں ہیں اس لئے خاموشی اختیار کرو، کوئی بات نہ کرو، تمہارا اس سے کیا واسطہ ہے؟ اگر کہو گے تو خود کوڑے کھاؤ گے۔
اگر شوہر جج کے پاس جا کر گواہی دے کہ اس کی بیوی نے زنا کیا ہے تو شوہر پر لازم ہے کہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھائے اور خدا کو اس بات پر گواہ بنائے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے، جھوٹ نہیں ہے۔ یعنی فقط ایک مرتبہ گواہی دینا کافی نہیں ہے بلکہ چار مرتبہ گواہی دے گا اور ہر مرتبہ اللہ کی قسم بھی کھائے گا، کیا یہ کافی ہے؟ نہیں یہ بھی کافی نہیں ہے۔ بلکہ پانچویں مرتبہ اسے چاہئے کہ اپنے اوپر لعنت بھیجے اور کہے ”اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔“ کیا بات اسی پر ختم ہو جاتی ہے اور عورت سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا زنا ثابت ہو گیا ہے؟ نہیں، عورت کے ذمہ بھی ایک کام لگایا جاتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تیرے شوہر نے ”لعان“ کیا ہے۔ یعنی اس نے چار مرتبہ قسم کھائی ہے اور ایک مرتبہ کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ اب تم کیا کہتی ہو؟ اگر عورت اعتراف کرے تو اسے سزا ملے گی اور اگر خاموشی اختیار کرے اور اپنا دفاع نہ کرے تو یہ بھی اعتراف کی طرح ہی ہے۔ لیکن عورت کے سامنے ایک اور راستہ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ تم بھی اس کی طرح قسم کھاؤ کہ تمہارا شوہر جھوٹ بولا رہا ہے اور پانچویں مرتبہ کہو: اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو۔“ اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اس سے کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زنا کیا ہے اور پھر اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ بھی اپنا دفاع کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اسلام اس کے بارے میں کیا حکم جاری کرتا ہے؟ مرد نے چار مرتبہ گواہی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو اور عورت نے بھی چار مرتبہ قسم کھا کر کہا ہے کہ اس کا شوہر جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں مرتبہ اس نے کہا ہے کہ ”اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو“ تو اس صورت میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ کیا وہ مرد کو قاذف (تہمت لگانے والا) قرار دیتا ہے اور اسے کوڑے لگاتا ہے؟ کیا اسلام عورت کو گناہ گار قرار دے کر اسے کوڑے مارتا ہے؟ کیا اس جگہ اس کی سزا رجم و سنگساری ہے؟ نہیں، پھر وہ کیا حکم دیتا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ اب جب کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اب تمہارے درمیان مکمل طور پر جدائی ہونی چاہئے اور طلاق کی بھی حاجت نہیں۔ آپ لوگوں کا یہی عمل طلاق کے مترادف ہے۔ اب تم ایک دوسرے سے جدا ہو۔ اس کا اپنا راستہ، اس کا اپنا راستہ۔ اب سے تمہارے درمیاں میاں بیوی کا رشتہ ختم۔ اس فعل کو اسلامی فقہ میں ”لعان“ اور ”ملاعنہ“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم کے زمانہ میں اور آپ کی موجودگی میں یہ عمل انجام دیا گیا اور مفسرین کے بقول یہی اس آیت کی شانِ نزول ہے۔
ہلال بن امیہ نامی ایک صحابی نے نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ: ”یارسول اللہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو فلاں مرد کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔“ آپ نے یہ سن کر اپنا رخِ مبارک دوسری جانب پھیر لیا۔ اس نے دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ اپنی بات کو دہرایا اور کہا: یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں سچ بول رہا ہوں، جھوٹ نہیں بول رہا۔“ اس وقت یہی آیات نازل ہوئیں اور نزولِ آیات کے بعد نبی اکرم نے ہلال بن امیہ اور اس کی بیوی کو بلا بھیجا۔ اس کی بیوی مدینہ کے امرأ میں سے تھی۔
ہلال بھی اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ آیا۔ پیغمبر اکرم نے اس موقع پر پہلی دفعہ ”لعان“ کی رسوم کو جاری کیا۔ اس مرد سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھاؤ اور خدا کو اس بات پر گواہ بناؤ کہ تم سچ بول رہے ہوں اور پانچویں مرتبہ کہو کہ اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ اس نے بڑی جرأت کے ساتھ کہہ دیا۔ پھر عورت سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہو کہ تمہارا شوہر جھوٹ بول رہا ہے۔ پہلے تو عورت نے خاموشی اختیار کی اور اس کی زبان تقریباً گنگ ہو گئی۔ وہ اعتراف کرنے کو ہی تھی کہ اس کی نگاہ اس کے رشتہ داروں کے چہروں پر پڑی اور (اس نے اپنے جی میں) کہا نہیں۔ میں ان کو ہرگز رسوا نہیں ہونے دوں گی اور ان کی شرمندگی کا موجب نہیں بنوں گی۔ پھر اس نے کہا کہ میں یہ کام کرتی ہوں (یعنی چار مرتبہ قسم کھاؤں گی اور کہوں گی کہ اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو) ہلال بن امیہ نے چار مرتبہ قسم کھائی اور پانچویں مرتبہ جب وہ اپنے اوپر لعنت کرنے لگا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ یہ جان لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت زیادہ دردناک ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاؤ؟ خدا کا خوف کھاؤ! اس نے کہا: ”نہیں یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“ عورت نے بھی جب چار مرتبہ قسم کھانے کے بعد کہنا چاہا ”اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو“ تو اس سے بھی نبی اکرم نے فرمایا کہ خدا کے غضب سے ڈرو جو کچھ آخرت میں ہے وہ اس سے بہت زیادہ سخت ہے جو دنیا میں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے شوہر کی بات درست ہو اور تم اس جھٹلا دو! یہ سنتے ہی عورت کی زبان رکنے لگی اس نے کچھ دیر تک خاموشی اختیا رکی وہ اعتراف کیا چاہتی تھی لیکن آخری لمحہ میں اس نے مذکورہ جملہ کہہ دیا۔ پھر نبی اکرم نے فرمایا کہ اب سے تم آپس میں میاں بیوی نہیں ہو۔
اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ ”وَلوْ لاَ فَضْلُ اللّٰه عَلَیکُمْ وَرَحْمَتُه وَ اَنَّ اللّٰه تَوَّابُ حَکیْمُ “ اگر تم پر خدا کا فضل او راس رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ تم پر سخت احکام نازل فرماتا۔ ممکن ہے تم خیال کرو کہ اس سلسلے میں جو احکام ہم نے نازل کئے ہیں وہ سخت ہیں۔ لیکن جان لو کہ یہ تو اللہ کا فضل، اس کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کے توبہ قبول کرنے کا مظہر ہے۔ تمہاری مصلحت اسی کا تقاضا کرتی ہے۔
اس کے بعد جو آیات ہیں انہیں آیاتِ ”افک“ کا نام دیا گیا ہے۔ افک یعنی تہمت جس کا تعلق ایک تاریخی واقعے کے ساتھ ہے۔ منافقین نے ایک واقعہ کے دوران نبی اکرم کی ایک زوجہ پر تہمت لگائی۔ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق وہ عورت حضرت عائشہ تھیں۔ بعض اہلِ تشیع کہتے ہیں کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں لیکن بعض اہلِ تشیع قائل ہیں کہ وہ عائشہ تھیں۔ شاید آپ خیال کریں کہ معاملہ تو اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا۔ اہلِ تشیع کو کہنا چاہئے تھا کہ جس عورت پر تہمت لگی تھی وہ عائشہ تھیں اور اہلِ تسنن کہتے کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔ اہلِ تسنن اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ وہ عائشہ تھیں اور متعصب شیعہ کیوں اصرار کرتے ہیں کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں: اس اصرار کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت نے بعد میں ایسی صورتِ حال اختیا رکر لی کہ معاشرتی لحاظ سے بھی اور اس عورت کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کے لحاظ سے بھی، جو اس مہتم عورت کے لئے وجہ افتخار بن گئی، یعنی پھر اس تہمت کے دروغ ہونے میں ذرہ برابر شک باقی نہ رہا، اس عورت کی پاکدامنی ثابت ہو گئی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ سراسر ایک جھوٹا قصہ تھا۔
اسی لئے اہلِ سنت مصر ہیں کہ وہ مہتم عورت جس کی پاکدامنی کی تصدیق کامل طور پر ہوئی ہے عائشہ تھیں اور بعض شیعہ حضرات یہ افتخار ماریہ قبطیہ کے نام ثبت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امر واقعہ کیا تھا، آیاتِ افک کو اس کی داستان جو کہ تفصیلی بھی ہے، کے ساتھ بعد والی تقریر میں انشاء اللہ عرض کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰه عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِه وَّاٰلِه الطَّاهرِیْنَ۔

 

۰۶ فوریه ۲۳ ، ۱۵:۱۶
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

مثالی معاشرے کی ضرورت و اہمیت:abfb sd

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر خلقت کے مقاصد اور انسانی کی اجتماعی زندگی کے ناقابل انکار پہلو کو ملحوظ نظر رکھا جائے، ایک مثالی معاشرے کی ضرورت خودبخود عیان ہوجاتی ہے مکتب نہج البلاغہ میں نہ صرف ایک انسانی معاشرے کی ضرورت پر ہی زوردیا گیا ہے بلکہ ایک صالح اورمثالی معاشرے کے تشکیل پربھی کافی تاکید کی گئی ہےامام علی(ع)انفرادی زندگی اور رہبانیت سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتے ہوئے معاشرے میں یکجا اور آپس میں ملکر رہنے کی تاکید فرماتے ہیں۔

(وَالْزَمُوا السَّوَادَ الاَعْظَم فَإِنَّ یَدَ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَإِیَّاکُمْ وَالْفُرْقَةَ! فَإِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّیْطَانِ، کَمَا أَنَّ الشَّاذَّةَ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ)”همیشہ مسلمانوں کی جمع غفیر سے پیوستہ رہو یقینا خدا کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور تفرقہ کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ اکیلا آدمی شیطان کا نوالا ہوتا ہے جس طرح اکیلا بھیڑ، بھیڑئے کا شکار ہوجاتا ہے

آپ کی نظر میں ایسے مراکز اور معاشرے میں زندگی گزارنی چاہیے جہان مسلمانوں کا کافی مجمع ہو اور توحید پرست افراد سکونت پزیر ہوں اور ایسی سوسائٹی سے دوری اختیار کرنی چاہیے جہاں ظلم و ستم اور خدا کی ذکر و عبادت سے غفلت کی جاتی ہو۔

(وَاسْکُنِ الْأَمْصَارَ الْعِظَامَ فَإِنَّهَا جِمَاعُ الْمُسْلِمِینَ وَاحْذَرْ مَنَازِلَ الْغَفْلَةِ وَالْجَفَاءِوَقِلَّةَ الْأَعْوَانِ عَلَی طَاعَةِ اللَّهِ)”ایسے بڑے بڑے شہروں میں سکونت اختیار کروجہاں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد پائی جاتی ہو اور ایسے معاشروں میں سکونت اختیار کرنے سے پرہیز کرو جہاں یاد خدا سے غفلت،ظلم کا ساتھ اور خدا کی قلیل عبادت کی جاتی ہو

اسی طرح ایسے معاشرے میں پروان چڑھنے والے افراد کے نیک صفات بیان کرتے ہوئے ان کے ساتھ اجتماعی روابط برقرار کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔

(ثُمَّ الْصَقْ بَذَوِی الْمُرُوءَاتِ وَالاَْحْسَابِ، وَأَهْلِ الْبُیُوتَاتِ الصَّالِحَةِ، وَالسَّوَابِقِ الْحَسَنَةِ، ثُمَّ أَهْلِ النَّجْدَةِ وَالشَّجَاعَةِ، وَالسَّخَاءِ وَالسَّماحَةِ، فَإِنَّهُمْ جِمَاعٌ مِنَ الْکَرَمِ، وَشُعَبٌ مِنَ الْعُرْفِ) ”پھر اسکے بعد اپنا رابطہ بلند خاندان ، نیک گھرانے، عمدہ روایات والے اور حاصبان ہمت و شجاعت و سخاوت و کرم سے مضبوط رکھو کہ یہ لوگ کرم کا سرمایہ اور نیکیوں کا سرچشمہ ہیں

پس ایسے نیک صفات آدمی جس معاشرے میں بھی پائے جاتے ہوں وہ معاشرہ بیشک انمول ہوگاامام فقط ایسے معاشرے کی تشکیل پر تاکید کرتے ہیں ایسے انسانی اقدار زندہ رکھنے والوں سے معاشرت کرنے کی تلاش میں ہیں پس ان فرمایشات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کواپنے اعلی مقاصد اور انسانی کمالات تک پہنچنے کے کئے ایک مثالی معاشرے کی ضرورت ہے۔

 

۰۶ دسامبر ۲۲ ، ۰۱:۲۵
البیان فاؤنڈیشن بلتستان


مسلمانوں کا تعلیمی نظام ، ایک تاریخی جائزہ

 دینی مدارس کے طلبہ کو عصری مضامین پڑھانے کیلئے تو خوب کوشش کی گئی لیکن جدید تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی کمی کو پورا کرنا بھی مطلوب ہے  

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان تعلیم کے دو دھارے جاری ہیں۔ ایک کو قدیم یا دینی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جدید یا عصری۔ یہ دونوں دھار ے متوازی چلتے ہیں اور جس طرح دریا کے دونوں کنارے طویل ترین فاصلہ طے کرنے کے با وجود کہیں نہیں ملتے، اسی طرح اِن دونوں دھاروں کے درمیان بھی کہیں یکجائی نہیں ہوتی۔ والدین کو ابتدا ہی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی دینی مکتب یا مدرسے کے حوالے کریں یا کسی اسکول میں اس کا داخلہ کرائیں۔ جدید تعلیم حاصل کرنے والا بچہ ڈاکٹر، انجینیئر، آرکیٹیکٹ یا کسی پروفیشن کا ماہر تو بن جاتا ہے لیکن اس کی دینی تعلیم واجبی سے بھی کم ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف مدرسے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا عالم و فاضل ہو کر مسجد کی امامت اور مدرسے کی مسند ِصدارت سنبھالنے کے قابل تو ہو جاتا ہے لیکن تیز رفتار ترقیات سے معمور دنیا میں وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، چنانچہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔  

اس صورتحال میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیا تعلیم کی یہ تقسیم دینی اعتبار سے درست ہے؟ کیا ایک صالح، کار آمد اور انسانیت کے لئے مفید معاشرہ کی تعمیر کے لئے اس تقسیم کو نہ صرف گوارا بلکہ باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں اس تقسیم کو روا رکھا تھااور کیا انھوں نے مسلم بچوں اور بچیوں کے لئے دینی تعلیم کا الگ انتظام کیا تھا؟

 

اسلام علم کو’ ’دینی‘‘ اور ’’دنیاوی‘‘ خانوں میں باٹنے کا قائل نہیں۔ بنیادی دینی تعلیم، جس کے ذریعہ انسان دین کے تقاضوں پر عمل کر سکے، اسے اس نے ہر مسلمان کے لئے لازم قرار دیا ہے(طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔حدیث) اس کے بعد علم و معرفت کے تمام دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی طلب، مواقع اور محنت کے مطابق ان سے فیض حاصل کر سکتا ہے۔ آج جن علوم کو خالص دینی علوم کہا جاتا ہے۔اگر کوئی شخص انھیں اس لئے حاصل کرتا ہے کہ ان کے ذریعہ دنیا کمائے، سماج میں اونچی پوزیشن حاصل کرے اور لوگ اس کے علم و فضل کے قصیدے پڑھیں تو اللہ کے رسول نے ایسے شخص کو وعید سنائی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ جنت سے اتنا دور ہوگا کہ اسے اس کی خوشبو بھی نہ آسکے گی حالانکہ اس کی خوشبو میلوں دور سے محسوس ہوگی (من تعلّم علماً مماّ یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلّمہ الا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا، لم یجد عرف الجنۃ۔ابوداؤد)۔اس کے بر عکس آج جن علوم کو خالص دنیاوی علوم سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی شخص انھیں اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس پر معرفت ِ خدا وندی کے اسرار کھلیں اور وہ ان کے ذریعہ خلقِ خدا کو فائدہ پہنچائے تو وہ اس پر ضرور بارگاہ الٰہی میں اجر و انعام کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے :’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔(فاطر28)۔

اس آیت میں’ ’خشیت الٰہی ‘‘سے بہرہ ور ہونے کا سہرا ’’علماء ‘‘ کے سر باندھا گیا ہے لیکن کون سے ’’علماء ‘‘ ؟ محض روایتی، قدیم، دینی علوم کے فیض یافتگان نہیں بلکہ تمام علوم سے شغف رکھنے والے لوگ۔ اس آیت سے متصل اس کا نصف اول ٹکڑا اور اس سے پہلے کی آیت ملاحظہ کیجیے :’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔‘‘(فاطر 28,27)۔

دیکھا جائے تو ان آیات میں علم موسمیات ،علم نباتات، علم طبقات الارض،علم بشریات اور علم حیوانات کی طرف اشارے موجود ہیں اور ان تمام کا شمار موجودہ اصطلاحات کے اعتبار سے جدید علوم میں ہوتا ہے۔

 

تعلیم گاہ کی خشت ِ اول مسجد نبوی میں بنے ہوئے چبوترے پر رکھی گئی تھی، جسے ہم ’’صفہ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہاں بھی علم کی جامعیت کا تصور پیش کیا گیاتھا۔ اصحاب صفہ نہ صرف قرآن حفظ کرتے اور اللہ کے رسول کے ارشادات کو سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرتے تھے بلکہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھتے اور فنونِ حرب کی بھی مشق کرتے تھے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جن سردارانِ مکہ کو گرفتار کیا گیا تھا ان کا فدیہ یہ قرار دیا گیا تھا کہ ہر شخص10 بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ ظاہر ہے کہ ان اسیرانِ قریش نے دینی تعلیم نہ دی ہوگی۔ عہدِ اموی میں جب اسلامی مملکت کی سرحدیں وسیع ہو ئیں اور دیگر قوموں سے ربط و تعامل بڑھا تو اس زمانے کے مروّجہ علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی تحریک شرع ہوئی۔ یزید بن ابی سفیان کی وفات (م64ھ) کے بعد رواج دیے گئے دستور کے مطابق ان کے بیٹے خالد کو زمامِ اقتدار سنبھالنی تھی، لیکن اس کا علمی شغف اتنا زیادہ تھا کہ اس نے خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خالد بن یزید نے خود بھی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا اور دوسروں سے بھی کروایا۔

 

عالم اسلام میں سیاسی آویزشیں جاری رہیں اور میدانِ سیاست میں کشت و خوں کا بازار گرم رہا، یہاں تک کہ خلافتِ بنو امیہ کا خاتمہ ہوگیا اور خلافتِ بنو عباس قائم ہو گئی لیکن علمی تحریک برابر زور پکڑتی گئی۔ عباسی حکمرانوں: منصور اور ہارون رشید نے اس کی سرپرستی کی، یہاں تک کہ مامون رشید نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس کے عہد میں قائم ’’بیت الحکمہ‘‘میں اس دور کے تمام مروّجہ علوم کی کتابوں کا دیگر زبانوں سے عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔اُس دور میں خلافتِ اسلامی کے حدود میں مدارس کا قیام شروع ہوا تو ان میں علوم کی تقسیم کو روا نہ رکھا گیا۔ ان میں داخلہ لینے والے طلبہ تمام علوم حاصل کرتے تھے اور بعد میں ذوق کے مطابق کسی فن میں اختصاص کرتے تھے۔تاریخ اسلامی میں دولت سلجوقیہ کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی (م485ھ) کے ذریعہ قائم ہونے والے مدرسے کو، جو اس کے نام سے منسوب ہو کر ’’مدرسۂ نظامیہ’‘ کہلایا، غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔

 

امام غزالیؒ(م505ھ) اور ان کے استاد امام الحرمین جوینی (م478ھ) اسی طرح ابن الخطیب(م776ھ)، تبریزی شارح حماسہ(م502ھ)، ابو الحسن فصیحی شاگرد امام عبد القادر جیلانی اور سعدی شیرازی نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی یا تدریس کے فرائض انجام دیے تھے۔

 

نظام الملک نے اپنے حدودِ مملکت کے دوسرے حصوں میں بھی مدارس کا جال بچھا دیاتھا۔ علامہ شبلیؒ نے اپنے مشہور مقالہ ’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم ‘‘ میں ایسے مدارس کی ایک طویل فہرست نقل کی ہے جو مسلم حکمرانوں کے دور میں ان کی حدودِ مملکت میں قائم ہوئے۔ نیسا پور، بغداد، ہرات، موصل، اصفہان، ماوراء النہر، بلخ،مرواور خوارزم وغیرہ میں بڑے بڑے مدارس قائم تھے۔علامہ شبلی نے انھیں موجودہ دور کی یونیور سٹیو ں سے تشبیہ دی ہے۔ انھوں نے مصر میں نور الدین زنگی (م569ھ) اور سلطان صلا ح الدین ایوبی (م589) کے زمانوں میں قائم ہونے والے مدارس کی بھی تفصیل پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ ایران، ترکی اور اندلس کے مدارس کا تذکرہ بھی تفصیل سے کیا ہے۔

 

ان مدارس میں دینی اور دنیاوی ہر طرح کے علم کی تعلیم دی جاتی تھی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علمائے متقدمین میں بعض ایسے حضرات بھی گزرے ہیں جو کسی دینی علم میں بھی مہارت رکھتے تھے اور کسی دنیاوی علم میں بھی۔ مثال کے طور پر الشیخ الرئیس ابو علی ابن سینا (م 438ھ) کی شہرت عظیم طبیب کی حیثیت سے ہے۔ ان کی کتاب’ ’القانون فی الطب‘‘ ایک ہزار سال سے طبی نصاب کی اہم ترین کتاب ہے۔ یورپ کے میڈیکل کالج میں بھی تقریباً 500سال تک داخلِ نصاب رہی ہے۔ اسی کے ساتھ فلسفہ میں بھی انھیں درک حاصل تھا۔ تیسری طرف علم تفسیر میں بھی انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ علامہ علاء الدین ابن نفیس قرشی دمشقی (م 687ھ) کا شمار بھی مشہور اطباء میں ہوتا ہے۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے قائم کر دہ اسپتالوں میں وہ افسر الاطباء رہے۔ اس کے علاوہ وہ عظیم فقیہ بھی تھے۔ قاہرہ کے مدرسہ مسروریہ میں فقہ شافعی کا درس دیتے تھے۔ اس ضمن میں اندلس کے علامہ ابن رشد قرطبی(م 595ھ) کاتذکر ہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہ بیک وقت طبیب بھی تھے،فلسفی بھی اور فقیہ بھی۔ فقہ میں ان کی کتاب ’’بدایہ المجتھد‘‘، فلسفہ میں ’’ تھافت التھافت ‘‘اور طب میں ’’کتاب الکلیات‘‘، یہ تینوں اب تک مرجعِ خلائق ہیں اور مشرق و مغرب میں ان سے بھر پور استفادہ کیا جا رہا ہے۔ 

 

غیر منقسم ہندوستان میں بھی مدارس کے قیام کی ایک زرّیں تاریخ ہے۔ عہدِ سلطنت میں اور بعد میں مغلیہ عہد میں ملک کے ہر حصہ میں مدارس قائم کیے گئے۔ ان میں تمام مروجہ علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ان مدارس کو حکومت کی سرپرستی حاصل رہتی تھی اور ان کا پورا خرچ سرکاری طور پر اٹھایا جاتا تھا۔ ہندوستان سے جب مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہوئی اور اس پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو ان مدارس پر افتاد پڑی۔ سرکاری امداد سے محروم ہوجانے کی وجہ سے وہ بند ہو گئے۔ انگریزوں نے اپنا نظام ِتعلیم جاری کیا۔ اس کے تحت جو تعلیمی ادارے قائم کیے گئے وہ ظاہر ہے کہ انگریزوں کی ضرورت پوری کر نے کے لئے تھے۔ سیاسی یلغار کے ساتھ فکری یلغار کی بھی زبردست کوششیں کی گئیں اور عیسائیت کو خوب بڑھاوا دیا گیا۔

 

اس صورت حال نے تعلیم کی دوئی پیدا کی اور دینی تعلیم اور غیر دینی تعلیم کے دھارے وجود میں آئے۔ کچھ مسلمانوں کے ذریعہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جو انگریزی حکومت کی ضروریات پوری کر سکیں اور ان کے لئے سول سرونٹس فراہم کر سکیں۔ دوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیبی وجود و بقا کے لئے فکر مند اصحاب نے ان کے لئے خالص دینی تعلیم کے ادارے قائم کیے، تاکہ ارتداد سے ان کی حفاظت ہو سکے اور وہ مسلمان رہتے ہوئے یہاں زندگی گزار سکیں۔علی گڑھ کالج غیر دینی تعلیم کا نمائندہ تھا تو دیوبند کا مدرسہ انھیں دینی تعلیم فراہم کرتا تھا۔ ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، انگریزوں کی حکومت ختم ہو چکی ہے، یہ دونوں دھارے الحمدللہ اب بھی متوازی چل رہے ہیں اور اپنی اپنی جگہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

 

ادھر کچھ عرصے سے مسلمانوں کی سوچنے سمجھنے والی اور ان کی فلاح و بہبود سے دلچسپی رکھنے والی شخصیات میں تعلیم کی دوئی کو ختم کرنے یا کم سے کم دونوں نظام ہائے تعلیم کے درمیان قربت پیدا کرنے کی فکر ہوئی اور اس کے لئے انھوں نے مختلف تدابیر اختیار کیں۔ ایک تدبیر انھوں نے یہ اختیار کی کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو کچھ انگریزی پڑھادی جائے اور معاشیات، سیاسیات اور کچھ دوسرے مضامین کی شدھ بدھ فراہم کر دی جائے تاکہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے بالکل اندھیرے میں نہ رہیں اور جدید تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اپنے دین سے بالکل نا بلد نہ رہ جائیں اس کیلئے صباحی اور مسائی تعلیم ا انتظام کیا گیا۔ اس تعلق سے زیادہ زور اور محنت دینی تعلیم کے اداروں پر صرف کی گئی۔ مدارس کے نصاب کو out of dateقرار دیا گیا،اس کی اصلاح کے لئے زبردست تحریکیں چلائی گئیں، کانفرنسیں منعقد کی گئیں، سمینار اور ورکشاپ کیے گئے، تجویز کردہ نئے نصاب کے مطابق کتابیں تیار کی گئیں۔ دوسری تدبیر یہ اختیار کی گئی کہ دینی مدارس کے فارغین کو جدید مضامین سے واقف کرنے کے لئے خصوصی کورسز شروع کیے گئے۔ اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں متعدد تجربات ہو رہے ہیں۔ یہ تمام کوششیں قابلِ قدر ہیں۔ ان کے کچھ ثمرات بھی ظاہرہو رہے ہیں، لیکن راقم کا احساس ہے کہ ایک طرف دینی مدارس کے طلبہ کو عصری مضامین پڑھانے کے لئے تو خوب کوشش کی گئی، لیکن دوسری طرف جدید تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے بچوں کی دینی تعلیم کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جتنی کوششیں مطلوب تھیں ، وہ نہ کی جاسکیں۔ دینی مدارس میں مسلم آبادی کے زیادہ سے زیادہ 4فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی جدید تعلیم کے لئے تو اتنی فکر اور کوشش کی گئی ، لیکن جدید تعلیمی اداروں میں داخل96 فیصد بچوں کو بنیادی دینی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لئے اس کا عشر عشیر بھی کوششیں نہیں کی گئیں۔

 

تعلیم کی دوئی ختم کرنے کے لئے ایک نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ ابتدا میں ایک مرحلے تک بچوں کو دینی اور غیر دینی دونوں طرح کے مضامین پڑھائے جائیں، اس کے بعد اختصاص کی تعلیم شروع کی جائے۔ اس مر حلے میں بچے کے ذوق اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کسی ایک فن کو خاص کر دیا جائے اور وہ اس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور جس حد تک مہارت پیدا کر سکے، کرے۔یہ ایک آئیڈیل نظریۂ تعلیم ہے ،لیکن یہ جتنا دلکش معلوم ہوتا ہے اتنا ہی دشوار ہے۔ اس کے متعدد تجربے کیے جا رہے ہیں، لیکن اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، پھر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس راہ میں برابر پیش قدمی کی جاتی رہے تو ان شا ء اللہ منزل دور نہیں ہوگی۔

 

 

 

۱۴ نوامبر ۲۲ ، ۰۰:۰۹
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

ان شاءاللہ بہت جلد البیان فاؤنڈیشن بلتستان کی طرف سے غریب مومنین کی عزت نفس بچانے کے لیے قرض الحسنہ بینکنگ سسٹم متعارف کررہے ہیں آپ تمام مومنین سے گزارش کرتے ہیں اس سسٹم میں اپنا حصہ ضرور شامل کریں تاکہ آپ کے دییے ہوئے قرضہ سے مومنین کی مدد ہوسکے

 

 

قرض الحسنہ

یُقْرِضُ اللہَ قَرْضاً حَسَناًFainal Logo.jpeg

قرض الحسنہ  کوآپریٹیو بنک لمیٹڈ

البیان فاؤنڈیشن بلتستان بنکنگ سسٹم:  یہ شعبہ اسلامی اصولوں کے مطابق  مالی منافع دینا  اور لوگوں میں قرض الحسنہ کو  عام کرنا ہے۔

قرض الحسنہ قران و حدیث کی نظر میں

مَنْ ذَالذی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضاً حَسَناً فیُضاعِفَہُ لہُ اضعافا کثیراً واللہ یقبضُ لہُ ویبصطُ والیہ ترجعون۔کوئی ہے جو اللہ کو قرض الحسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ ؟ اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔     سورہ بقرہ آیت 245  

یہ آیت رحمت وفیض الٰہی کا بہترین نمونہ ہے ایک بے نیاز ہستی محتاج بندوں سے قرض مانگ رہی ہے اور وہ بھی اس مال سے جو خود اس نے عطافرمایا ہے تاکہ بندوں کو یہ آواز بھلی لگے، یہ ندا پرکشش لگے، وہ اس ودعوت میں لذت محسوس کریں اور اس پر لبیک کہنے میں فخر و مباہات کریں ۔ اس خطاب کی شیرینی کے بعد قرض الحسنہ دینے کی راہ میں آنے والی ساری تلخیاں بھی شیریں ہوجاتی ہیں، پھر قرض حسنہ لینے والا یعنی اللہ، مالک حقیقی ہونے کے باوجود کئی گنا زیادہ دینے کے مشفقانہ وعدہ فرماتاہے۔ سبحان الکریم الجواد کس قدر منافع بخش ہے یہ سودا۔ کئی گنازیادہ دینے کا وعدہ اس خدا کی طرف سے ہے جو قابض ہے، یعنی گھٹانے والا اور باسط ہے یعنی بڑھانے والا اور مرجع کل بھی ہے کہ آخر میں پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔

مَنْ ذَالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیُضاعِفَہُ لہُ وَ لَہُ اجرٌ کریم۔ سورہ الحدیدایت11

کوئی ہے جو اللہ کو قرض الحسنہ دے تاکہ اللہ اس کے لیے اسے کئی گنا کردے؟ اور اس کےلیے پسندیدہ اجر ہے ۔

سورہ حدید آیت 18،

قرآن میں قرض بہ خدا 7 بار آیا ہے خود لفظ قرض 13 بار آیا ہے قرض کے ساتھ حسناً ذکر ہوا ہے ۔

قرض کا لغوی معنیٰ قطع کرنا، جدا کرنا ۔ قرض کو قرض کیوں کہتے ہیں؟  دوسرے مال سے قطع کرکے یا جدا کرکے دیا جاتاہے لہذا قرض کہتے ہیں۔ دوسری علت انسان مال دولت سے دلی وابستگی سے قطع کرکے دیا جاتاہے۔

شرائط قرض: 1: مال حلال ہو۔ 2: مال سالم ہو۔ 3: مصرف ضروری ہو۔ 4: بے منت ہو ۔5: بے ریا ہو: 6: مخفیانہ ہو۔7: عشق و ایثار سے ادا کرے۔8: بہت جلد ادا کرے ۔ 9: قرض دھندہ خدا کی توفیق پر شکرگزار ہو۔ 10: انسان کی عزت و آبرو کا محافظ ہو۔

قرض از نگاہ قرآن۔ لئن اقمتم الصلاۃ واٰتیتم الذکواۃ آمنتم برسلی و عذروتموھم واقرضتم اللہ قرضا حسنا لاکفرن سیاتکم ولادخلنکم جنات تجری من تحتھاالانھار (سورہ مائدہ ایت13) اہمیت نماز اور زکواۃ کے بعد قرض کو ذکر کیا ہے۔

اہمیت قرض الحسنہ۔ نماز زکواۃ کے بعد قرض کا ذکر آیا ۔ 2: قرض خدا کے ساتھ معاملہ ہے۔ 3: مرد و عورت کی فرق نہیں جس طرح نماز زکواۃ میں آیا ہے چونکہ صیغہ جمع استعمال ہوا ہے ۔ سورہ مزمل آیت 30 ۔

قرض کے فوائد: 1:  یعنی قرض جو دے رہاہے اس شخص کو نہیں بلکہ خدا کو دے رہاہے۔ 2: قرض دینے والے کو قرض کے بدلے میں اس کے تمام گناہ معاف کردیا جائے گا۔ 3: جنت اس کے لیے لکھ دیا جائےگا۔4: قرض دینے سےنعمت میں اضافہ ہوگا۔

5:  معاشرہ برکت زیادہ ۔ 6: فقراء مایوس نہیں ہوتا۔ 7: اغنیا کثرت مالی کی طرف  زیادہ توجہ نہیں دیتا ہے ۔ 8: محروم لوگ چور اور ڈھاکہ کم کرتاہے۔

9: اغنیاء کو اپنے اموال کی حفاظت کی فکر کم ہوتی ہے۔ 10: لوگوں کے درمیان مہر و محبت پید اہوگی۔ 11: جامعہ میں امن و امنیت  ہوگی۔  12 معاشرہ میں طبقات یعنی مالدار اور غیر مالدار میں فرق کم ہونگے۔

قرض الحسنہ کے حصول کےلیے درجہ ذیل شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے۔

1: بالغ  و عاقل ہو(کسی نابالغ یا کسی غیر عاقل کو قرضہ نہیں دیا جائےگا)

2: کسی مرض میں مبتلا نہ ہو ۔3: بلتستان کے از پشتی باشندہ ہو۔ 4: بلتستان میں ہی زندگی کررہاہو۔ 5: عدالت کا سزا یافتہ نہ ہو۔ 6: کسی بھی محکمہ کوخصوصا پولیس کو مطلوب نہ ہو۔ 7: مقروض نہ ہو۔8:

۲۴ اکتبر ۲۲ ، ۰۱:۲۳
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

 البیان فاؤنڈیشن بلتستان ایک تعلیمی تربیتی، فکری اور فلاحی ادارہ ہے۔

عنوان عکس

۲۱ اکتبر ۲۲ ، ۰۱:۴۰
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

صلح نامہ امام حسن علیہ سلام

حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت ۳ ھ رمضان المبارک کی پندرہویں تاریخ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ مشہور تاریخ داں جلال الدین نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ آپ کی صورت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے بہت ملتی تھی۔

 حضرت امام حسن علیہ السلام نے صلح کے ذریعہ معاویہ کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹ دیا اور لوگوں کو اس کے اصلی چہرے سے آشنا کرادیا۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کی پرورش آپ کے والدین اور نانا رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زیر نظر ہوئی۔ اور ان تینوں عظیم شخصیتوں نے مل کر امام حسن علیہ السلام کے اندر انسانیت کے تمام اوصاف کو پیداکیا۔

 شیعہ مذہب کے عقیدہ کے مطابق امام پیدائش سے ہی امام ہوتاہے لیکن وہ اپنے سے پہلے والے امام کی وفات کے بعد ہی عہدہٴ امامت پر فائز ہوتا ہے لہٰذا حضرت امام حسن علیہ السلام بھی اپنے والد بزرگوار حضرت امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد عہدہٴ امامت پر فائز ہوئے۔

جب آپ نے اس مقدس منصب پر فائز ہوئے تو چاروں طرف ناامنی پھیلی ہوئی تھی اور اس کی وجہ آپ کے والد کی اچانک شہادت تھی۔ لہٰذا معاویہ نے جو کہ شام نامی صوبہ کا گورنر تھا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کربیٹھا ۔ امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھ غداری کی ، انھوں نے مال ودولت ،عیش و آرام وعہدہ کے لالچ میں معاویہ سے سانٹھ گانٹھ کر لی ۔ ایسی صورت میں امام حسن  علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے ایک تو یہ کہ دشمن کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اپنی فوج کے ساتھ شہید ہو جائیں یا دوسرے یہ کہ اپنے وفادار دوستوں اور فوج کو قتل ہونے سے بچا لیں اوردشمن سے صلح کرلیں۔ اس صورت میں امام نے اپنے حالات کا صحیح جائزہ لیا اور سرداروں کی بے وفائی اور فوجی طاقت کی کمی کی وجہ سے معاویہ سے صلح کرنا ہی بہتر سمجھا۔

صلح کے شرائط:

۱۔معاویہ کو اس شرط پر حکومت منتقل کی جاتی ہے کہ وہ الله کی کتاب ،پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے نیک جانشینوں کی سیرت کے مطابق کام کرے گا۔

۲:  معاویہ کے بعد حکومت امام حسن علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگی اور امام حسن علیہ السلام کے اس دنیا میں موجود نہ ہونے کی حالت میں حکومت امام حسین علیہ السلام کو سونپی جائے گی ۔

۳:  نماز جمعہ کے خطبے میں امام علی علیہ السلام پر ہونے والا سب وشتم ختم کیا جائے اور آپ کو ہمیشہ اچھائی کے ساتھ یاد کیا جائے۔

۴ :  کوفہ کے بیت المال میں جو مال موجود ہے اس پر معاویہ کاکوئی حق نہ ہوگا ،معاویہ ہر سال بیس لاکھ درہم امام حسن علیہ السلام کو بھیجے کا اور حکومت کی طرف سے ملنے والے مال میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر ترجیح دے گا، جنگ جمل وصفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے بچوں کے درمیان دس لاکھ درہم تقسیم کئے جائیں اور یہ رقم ایران کے دارب گرد نامی صوبہ کی درآمد سے حاصل کئے جائیں۔

۵:  الله کی زمین پررہنے والے تمام انسانوں کو امان ملنی چاہئے، چاہے وہ شام کے رہنے والے ہوں یا یمن کے، حجاز میں رہتے ہوں یا عراق میں، کالے ہوں یا گورے۔معاویہ کو چاہئے کہ وہ کسی بھی شخص کو اس کے ماضی کے برتاؤ کی وجہ سے کوئی سزا نہ دے، اہل عراق کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اختیار نہ کرے، حضرت علی علیہ السلام کے تمام ساتھیوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام وپیغمبر اسلام کے خانوادے سے متعلق کسی بھی شخص کی کھلے عام یا پوشیدہ طور پر برائی نہ کی جائے۔

 حضرت امام حسن علیہ السلام کے اس صلح نامہ سے معاویہ کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹ دیا اور لوگوں کو اس کے اصلی چہرے سے آشنا کرایا۔

شہادت:

حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت  ۵۰   ھ میں ماہ صفر کی ۲۸/تاریخ کو مدینہ میں ہوئی۔ معاویہ کی سازش کے تحت آپ کی جعدہ نامی زوجہ نے آپ کے پینے کے پانی میں زہر ملادیا تھا یہی زہر آپ کی شہادت کا سبب بنا۔

قبر مبارک:

 طبقات ابن سعد میں مرقوم ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں فرمایا کہ مجھے میرے نانا کے پہلو میں دفن کرنا۔

ابوالفرج اصفہانی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں لکھتے ہیں کہ جب امام حسن علیہ السلام کو دفن کرنے کے لئے پیغمبر اسلام کے روزے پرلے گئے توعائشہ نے اس کی مخالفت کی اور بنی امیہ وبنی مروان بھی عائشہ کی مدد کے لئے پہنچ گئے اور امام حسن علیہ السلام کی وہاں تدفین میں رکاوٹیں ڈالیں۔

آخر کار امام حسن علیہ السلام کے تابوت کو جنت البقیع میں لایا گیا اور آپ کو آپ کی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔

ناشر: نشر ابلاغ البیان فاؤنڈیشن بلتستان

تاریخ نشر:

۲۳ نوامبر ۲۰ ، ۱۴:۳۴
البیان فاؤنڈیشن بلتستان