ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

اغراض و مقاصد
علاقے میں دینیات سینٹرز کاقیام،مختلف شہروں، قصبوں میں لائبری قائم کرنا، سکولوں کے ایام تعطیلات میں دین شناسی شارٹ کورس کا انعقاد، سکول وکالجز میں معارف اسلامی کے لیے اساتید کا تقرر، اساتیدکی تربیت کرنا تاکہ وہ بہتر انداز میں بچوں کی تربیت کرسکے، مغربی تہزیب جو سکولوں میں رائج کرنے کی انتھک کوششیں ہورہی ہیں ان کا مقابلہ کرنا۔ اور اسلامی تہذیب معاشرہ و سکول و کالجوں میں رائج کرنا۔
ہم سب پر امر باالمعروف ونہی از منکر واجب ہے۔
آپ تمام سے دست بستہ عرض ہے کہ اس کارخیر میں ہمارے ساتھ تعاون فرماکر ہدف تک پہنچنے میں ہمارے ساتھ دیں

طبقه بندی موضوعی

۳ مطلب در نوامبر ۲۰۲۰ ثبت شده است

صلح نامہ امام حسن علیہ سلام

حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت ۳ ھ رمضان المبارک کی پندرہویں تاریخ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ مشہور تاریخ داں جلال الدین نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ آپ کی صورت پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے بہت ملتی تھی۔

 حضرت امام حسن علیہ السلام نے صلح کے ذریعہ معاویہ کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹ دیا اور لوگوں کو اس کے اصلی چہرے سے آشنا کرادیا۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کی پرورش آپ کے والدین اور نانا رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زیر نظر ہوئی۔ اور ان تینوں عظیم شخصیتوں نے مل کر امام حسن علیہ السلام کے اندر انسانیت کے تمام اوصاف کو پیداکیا۔

 شیعہ مذہب کے عقیدہ کے مطابق امام پیدائش سے ہی امام ہوتاہے لیکن وہ اپنے سے پہلے والے امام کی وفات کے بعد ہی عہدہٴ امامت پر فائز ہوتا ہے لہٰذا حضرت امام حسن علیہ السلام بھی اپنے والد بزرگوار حضرت امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد عہدہٴ امامت پر فائز ہوئے۔

جب آپ نے اس مقدس منصب پر فائز ہوئے تو چاروں طرف ناامنی پھیلی ہوئی تھی اور اس کی وجہ آپ کے والد کی اچانک شہادت تھی۔ لہٰذا معاویہ نے جو کہ شام نامی صوبہ کا گورنر تھا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کربیٹھا ۔ امام حسن علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ کے ساتھ غداری کی ، انھوں نے مال ودولت ،عیش و آرام وعہدہ کے لالچ میں معاویہ سے سانٹھ گانٹھ کر لی ۔ ایسی صورت میں امام حسن  علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے ایک تو یہ کہ دشمن کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے اپنی فوج کے ساتھ شہید ہو جائیں یا دوسرے یہ کہ اپنے وفادار دوستوں اور فوج کو قتل ہونے سے بچا لیں اوردشمن سے صلح کرلیں۔ اس صورت میں امام نے اپنے حالات کا صحیح جائزہ لیا اور سرداروں کی بے وفائی اور فوجی طاقت کی کمی کی وجہ سے معاویہ سے صلح کرنا ہی بہتر سمجھا۔

صلح کے شرائط:

۱۔معاویہ کو اس شرط پر حکومت منتقل کی جاتی ہے کہ وہ الله کی کتاب ،پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے نیک جانشینوں کی سیرت کے مطابق کام کرے گا۔

۲:  معاویہ کے بعد حکومت امام حسن علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگی اور امام حسن علیہ السلام کے اس دنیا میں موجود نہ ہونے کی حالت میں حکومت امام حسین علیہ السلام کو سونپی جائے گی ۔

۳:  نماز جمعہ کے خطبے میں امام علی علیہ السلام پر ہونے والا سب وشتم ختم کیا جائے اور آپ کو ہمیشہ اچھائی کے ساتھ یاد کیا جائے۔

۴ :  کوفہ کے بیت المال میں جو مال موجود ہے اس پر معاویہ کاکوئی حق نہ ہوگا ،معاویہ ہر سال بیس لاکھ درہم امام حسن علیہ السلام کو بھیجے کا اور حکومت کی طرف سے ملنے والے مال میں بنی ہاشم کو بنی امیہ پر ترجیح دے گا، جنگ جمل وصفین میں حضرت علی علیہ السلام کی فوج میں حصہ لینے والے سپاہیوں کے بچوں کے درمیان دس لاکھ درہم تقسیم کئے جائیں اور یہ رقم ایران کے دارب گرد نامی صوبہ کی درآمد سے حاصل کئے جائیں۔

۵:  الله کی زمین پررہنے والے تمام انسانوں کو امان ملنی چاہئے، چاہے وہ شام کے رہنے والے ہوں یا یمن کے، حجاز میں رہتے ہوں یا عراق میں، کالے ہوں یا گورے۔معاویہ کو چاہئے کہ وہ کسی بھی شخص کو اس کے ماضی کے برتاؤ کی وجہ سے کوئی سزا نہ دے، اہل عراق کے ساتھ دشمنوں والا رویہ اختیار نہ کرے، حضرت علی علیہ السلام کے تمام ساتھیوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام وپیغمبر اسلام کے خانوادے سے متعلق کسی بھی شخص کی کھلے عام یا پوشیدہ طور پر برائی نہ کی جائے۔

 حضرت امام حسن علیہ السلام کے اس صلح نامہ سے معاویہ کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو الٹ دیا اور لوگوں کو اس کے اصلی چہرے سے آشنا کرایا۔

شہادت:

حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت  ۵۰   ھ میں ماہ صفر کی ۲۸/تاریخ کو مدینہ میں ہوئی۔ معاویہ کی سازش کے تحت آپ کی جعدہ نامی زوجہ نے آپ کے پینے کے پانی میں زہر ملادیا تھا یہی زہر آپ کی شہادت کا سبب بنا۔

قبر مبارک:

 طبقات ابن سعد میں مرقوم ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں فرمایا کہ مجھے میرے نانا کے پہلو میں دفن کرنا۔

ابوالفرج اصفہانی اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں لکھتے ہیں کہ جب امام حسن علیہ السلام کو دفن کرنے کے لئے پیغمبر اسلام کے روزے پرلے گئے توعائشہ نے اس کی مخالفت کی اور بنی امیہ وبنی مروان بھی عائشہ کی مدد کے لئے پہنچ گئے اور امام حسن علیہ السلام کی وہاں تدفین میں رکاوٹیں ڈالیں۔

آخر کار امام حسن علیہ السلام کے تابوت کو جنت البقیع میں لایا گیا اور آپ کو آپ کی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کردیا گیا۔

ناشر: نشر ابلاغ البیان فاؤنڈیشن بلتستان

تاریخ نشر:

۲۳ نوامبر ۲۰ ، ۱۴:۳۴
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

تربیت کے پانچ اصول
 

ترجمہ: فرمان علی شگری

 

تربیت

جوان پانچ تربیتی اصول کا محتاج ہے اور حضرت علی اکبر علیہ السلام ان پانچ تربیتی اصول کا مظہر ہیں۔

1: دینی تربیت: خداوند متعال کی شناخت، خدا اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ رابطے کی اہمیت کے حوالے سے جوانوں کو تعلیم دینی چاہیے. پیغمبر اکرم (ص) اس موضوع کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
دینی تربیت کا یہ اصل اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ماں باپ دینی معاملات میں اس کے مخالف ہوجائیں، تب بھی ان کی باتوں کو نہیں ماننا چاہیے
معاشرے میں بعض افراد کہتے ہیں کہ نماز ایک تکراری عمل ہے اور روزانہ 5مرتبہ اس کا تکرار ہونا انسان کو تھکا دیتا ہے. ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کی زندگی ہی تکراری عمل سے عبارت ہے  روزانہ کی بنیاد پر کھانا کھانا، کھانا پکانا، سونا اور سکول جانا و... یہ سب اعمال تکراری ہیں اور تکرار سے ہی زندگی کا  پہیہ چلتا ہے۔
2: اخلاقی تربیت: یعنی بچوں کو اخلاقی مسائل سے آگاہ کرنا، جیسے سچائی و صداقت، جھوٹ اور غیبت سے اجتناب کرنابچوں کی تربیت ایسی نہیں ہوتی جو ہم چاہتے ہیں بلکہ جس طرح ہم ہیں ایسے ہی بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔

 3: سماجی اور اجتماعی تربیت: افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق عصر حاضر میں جوانوں میں گوشہ نشینی اور گوشہ گیری(Introversion)  کا رجحان روز بروز بڑھتا جارہا ہے یہ ایک سماجی مشکل ہے اور مستقبل میں جوانوں کی شادی کے بعد مزید مشکل سے دوچار ہوجائیں گے۔
 انفاق، صدقہ دینا اور عام المنفعہ کاموں میں حصہ لینا، صلہ ارحام، بیماروں کی عیادت و... جوانوں اور بچوں کے سماجی اور اجتماعی رشد ونما کے عوامل میں سے ہیں۔
4علمی تربیت: یہ تربیت کے ان اصولوں میں سے ہے جس کی رعایت ہونی چاہیے علم میں بھی ترجیحی پہلو کو مد نظر رکھنا ہوگا جوانوں کو ایسی تعلیم دینی چاہیے جو ان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرے۔ شبہہ سے نہیں ڈرنا چاہیے بلکہ شبہہ میں رہنے سے ڈرنا چاہیے جوانوں کو ہمیشہ ایک عالم دین سے رابطہ میں رہنا چاہیے۔

5سیاسی تربیت: ولایت فقیہ کا نظام ایک سیاسی نظام نہیں ہے بلکہ ایک دینی نظام ہے اور امام خمینی (رہ) نے ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی، جوانوں کا اس موضوع سے آگاہ ہونا ضروری ہے. دین داری  سیاست سے جدا نہیں ہے کیونکہ ہمارے سارے ائمہ اور معصومین سیاسی ہونے کی وجہ سے شہید ہوگئے ہیں۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام دینی، اخلاقی، اجتماعی، علمی و سیاسی تربیت کے مظہر اور آئینہ دار تھے۔

تبصرہ

دکتر حسن خان اماچہ کا تبصرہ۔

اچھی تربیت کے سارے پہلو صحیح   لیکن کربلا میں انکا کردار۔ اپنے زمانے کے امام کی نصرت ہے ۔جو جوانوں کے لئے نمونہ عمل ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں امام نہ ہو ۔امام باطل سے بر سر پیکار نہ ہو ۔اور امام کو نصرت کی ضرورت  نہ ہو ۔  امام موجودہ اور پردہ غیب میں ہے۔ باطل خود امام کے مشن سے برسرپیکار ہے ۔امام نصرت کے منتظر ہیں ان سب کی موجودگی میں جوانوں کی اصل اور اہم ذمہ داری کیا بنتی ہے؟

 

۲۳ نوامبر ۲۰ ، ۱۴:۲۵
البیان فاؤنڈیشن بلتستان

 

اسلامی نظام تعلیم

از نظر امام خمینی ؒ

تحریر: محمد ایوب مطہری شگری

اگر سکول ،کالج و یونیورسٹیوں کے اساتید و پروفیسرز حضرات کی توجہ صرف اسی بات پر ہو کہ وہ صرف سبق پڑھائیں ، لیکچر دیں اور طالب علموں کو صرف علم دے دیں تو چنانچہ اگر اس تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہیں کی جائے اور معنوی اللہ و ہدایت کا سامان نہ ہو تو یہ جان لیں کہ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد برائی ہی پھیلائیں گے ۔

اس وقت ہمارے سکول و کالجوں سے اگردرس معنویت دی جاتی توآج ہم اور ہمارے بچے علم ودانش کے قافلے سے اتنے پیچھے نہ ہوتے۔اگر مقصد  فقط تعلیم دینا ہی ہواور معنوی تربیت نہ ہو تو سکول و کالجوں سے جو بچے نکلیں گےوہ خرابی ہی پیداکریں گے ، دینی مدارس بھی اسی طرح ہیں ۔اگر دینی مدارس اور حوزہ ہاے علمیہ میں طالب علموں کی تہذیب نفس کے لیے اقدامات نہ کیے جائیں ، ان کے اخلاق کو بہتر بنانے کےلئے کام نہ کیا جائے اور معنوی تعلیم کا کوئی انتظام نہ ہو ، یعنی صرف تعلیم دی جائے اور صرف علم سے ہی ان کو مالا مال کیا جاے تو وہاں سے بھی فارغ التحصیل افراد دنیا کو ہلاکت و نابودی سے دوچار کریں گے ۔ پس یہ کہنا چاہیے کہ یہ دو  رکن یعنی تعلیم و تربیت ہمیشہ سے ساتھ ساتھ ہیں اور اگر ایک معاشرے میں، ایک ادارے میں یا ایک مدرسہ ، سکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں ان کے طالب علموں کے لیے ان دونوں ارکان سے ایک ساتھ استتفادہ کیا جائے تو اس وقت ہم یونیورسٹی، دینی مدارس اور معاشرے کے تمام افراد سے ان کی ہر قسم کی علممی سطح اور ان کے تمام تر مراتب علمیہ کے ساتھ ہر وقت مستفیض ہوسکیں گے۔

جو چیز اہم ہے وہ زمانہ طفولیت سے ہی ان نونہالوں کی روح کی پرورش کرنا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ان کی روحانی تربیت کی جائے اور یہ علمی زیور سے مالاما ل بھی ہوں ۔ علم اگر ایک آلودہ قلب اور بُرے خیالات کےحامل ذہن میں اخلاق کا لبادہ اوڑھ کر وارد ہو تو اس کا ضرر نقصان نادانی اور سہو کے نتیجے میں ہونے والے ضرر سے زیادہ ہے ۔صحیح ہے کہ نادانی ایک بڑی چیز کا فقدان ہے لیکن اس میں نہ تو کسی کو نقصان پہنچایا جاتاہے اور نہ ہی کسی کو نابود کیا جاتاہے۔ بر خلاف اس چیز کے کہ علم ہو لیکن اخلاق و تہذیب اور انسانی و خدائی خیال و توجہ کے بغیر ، یہ چیز ہے جوانسان کو ہلاکت سے دو چار کرتی ہے۔ انبیاء ؑجس قدر تربیت کےلئے زور دیتے تھے اور لوگوں کو مہذب اور تہذیب یافتہ بنانے کے لیے جتنی کوششیں کرتے تھے اتنی سعی علم کےلیے نہیں کرتے تھے ۔ تہذیب نفس کےلیے زیادہ کوششیں اسی لیے کی جاتی ہیں کہ اس کا فائدہ اور نفع زیادہ ہے ۔

البتہ علم بھی ایک ایسی چیز ہےکہ جو سب کی توجہ کا مرکز رہی ہے لیکن علم کو تربیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ وہ دو پر ہیں کہ اگر کوئی قوم چاہے کہ سعادت و خوش بختی کی طرف  پرواز کرے تو اسے انہی دو پروں ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے ذریعے ہی پرواز کرنی چاہیے ۔ اگر ان میں سے ایک بھی نہ ہو تو سعادت کی طرف پروازنا ممکن ہے۔ (صحیفہ امام خمینی ؒ)

انسانی تربیت کی ضرورت:

عدم اصلاح کی صورت میں نابودی:

اگر آپ نے اپنی اصلاح نہیں کی توتاریک مستقبل اورسیاہ دنوں کی آپ کےلیے پیشنگوئی کررہاہوں ۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو اخلاقی طور پر مہذب نہیں بنایا، اگر آپ نےاپنی زندگی اور درس و تعلیم میں نظم و ضبط کو حاکم نہیں بنایا تو آنے والے وقت میں آپ خدا نخواستہ نابود و فناہوجائیں گے۔

تربیت کا صرف انسان سے مختص ہونا۔

اس عالم ہستی سے تعلق رکھنے والے موجودات میں صرف انسان ہی کو کچھ خصوصیات حاصل ہیں کہ جو دوسرے تمام موجودات کو حاصل نہیں ۔ ایک خصوصیت اس کی باطنی دنیا ہے۔ دوسری  خصوصیت اس کا عقلمند ہوناہے اور اس کی عقل سے بڑھ کر بھی اس کی ایک اور خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ اس میں تمام کمالات بالقوہ ہیں انسان کی فطرت میں ان تمام کمالات کی طرف راہنمائی موجود ہے کہ جن کی ایک انسان کو ضرورت پڑتی ہے یہ ان تمام کمالات کا بالقوہ ہونا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان ان کمالات کو مرتبہ بالقوہ سے مرتبہ بالفعل تک پہنچانے کےلیے کوشش اور جد جہد کرے۔       (تعلیم و تربیت ،ص ۲۳)

انسان کی فطرت میں اس بات کی صلاحیت ہے کہ انسان اس فطرت کے سائے میں اس عالم ہستی کی سیر کرے اور اس مقام تک پہنچے کہ جہاں ہمارا وہم و گمان بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ لیکن ان مدارج کو طے کرنے کےلیے انسان تربیت کا محتاج ہے۔ (صحیفہ امام خمینی  ؒ)

نفس کو مہار نہ کرنے کے نتائج۔

اگر ہم صراط مستقیم پر قدم نہ اٹھائیں ، اپنے نفس اور معلومات کو مہار نہ کریں اور اس راہ میں اپنی نفسانی خواہشات کا  گلہ نہ گھونٹیں تو علم جتنا بھی زیادہ ہوتاجاے گا انسان، انسانیت سے دور چلا جائےگا  اورایسی صورت میں انسان کا صراط مستقیم کی طرف لوٹنا مشکل تر ہوجائے گا۔

انبیاء ؑ کے ذریعے انسانی تربیت کی ضرورت۔

یہ طاغوتی اور شیطانی وجود اگر انبیاء کےسائےتلے پروان نہ چڑے اور ان کی تعلیم و تربیت کے مطابق زندگی نہ گزارے تو اس شخص میں اور اس شخص میں کوئی فرق نہیں کہ جو عملا دنیا کو لوٹ  رہا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ یہ لوٹ مار اس کے مکان سے باہر ہے اور عملالوٹ رہا ہے۔                               (صحیفہ امام خمینی  ؒ)

نوجوانوں کی تربیت لازمی امر ہے ۔

پہلا مطلب یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اچھے بن جائیں ۔ یہ نوجوان جو مستقبل میں اس مملکت کے نگہبان اور اسے چلانے والے ہیں تولازمی ہے کہ ان کی صحیح تربیت اور اصلاح کی جائے ۔  (صحیفہ امام)

انسان کا بے لگا ہونا۔

انسان پہلے ایک حیوان  ہے، بلکہ حیوانات سےزیادہ بدتر ۔ اگر انسان اپنی خواہشات نفسانی کےسائے میں پروان چڑھے اور یونہی آگے بڑھے تودرندگی ، شہوت اور شیطنت کوئی حیوان انسان کے مثل نہیں ہوسکتا ہے ۔ دوسرے حیوانات کی شیطنت، شہوت اور درندگی محدود ہے۔ انسان ایک ایسا موجود ہے جو اپنی خلقت کے اعتبار سے دیگر تمام موجودات سے بالاتر مقام کا حامل ہے لیکن دوسری طرف اس کی شہوت، غیض و غضب اور شیطنت ہے کہ ان کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ فرض کریں ایک انسان اگر ایک گھر کا مالک بن جائے تووہ دوسرے گھر کی تلاش میں چل پڑتا ہے ۔ اگر پوری دنیا اس کے قبضہ قدرت میں ہو تب بھی وہ اس فکر میں ہے کہ چاند پر بھی قبضہ کرلے اور مریخ پربھی تسلط جمالے۔ نہ اس کی ہوس کی کوئی حد ہے اور نہ اس کی شہوت کہ ایک مقام پر جاکر سیر ہوجائے۔ ایک مقام مل جائے تو دوسرے مقامات کی تلاش میں، دس مرتبے مل جائیں تو سو کی تلاش میں سرگردان رہتا ہے اور نہ اس کی لالچ کا دریا آرام پانے والاہے کہ ایک ملک ، دو ملک اور دس ممالک پر قانع ہوجائے ۔ انبیاء ؑاسی لیے آئے ہیں کہ اس کی خواہشات کو محدود کریں، یعنی اسے لگام دیں ۔ یہ بے لگام حیوان کسی بھی محدودیت کا قائل نہیں ہے۔

انبیاءؑ اگر اسے آزاد چھوڑدیں اور اس کی تریبت نہ کریں تو اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ تمام چیزوں کو اپنے لیے ہی چاہتا ہے اور تمام چیزوں کو اپنے مقصد کےلئے قربان کرنےسے بھی دریغ نہیں کرتا۔ انبیاء ؑ کی آمد کا مقصد یہی کہ اس بے لگام حیوان کو لگام دیں اور قوانین کے زیرسایہ لے آئیں اور جب یہ قابو میں آجائے تو اسے راہ ہدایت دکھائیں تاکہ اس کی صحیح تربیت ہوسکے ایک ایسی تربیت کہ جس کے ذریعہ سے وہ اپنے ممکنہ کمالات کی آخری منزل کو پاسکے کہ جو ہمیشہ اس کے لئے سعادت ہے۔(صحیفہ امام خمینی  ؒ)

اختلاف ونزاع کی وجہ

اگر ہم اپنی تربیت کرلیں توہماری تمام مشکلات دورہوجائیں گی۔ہماری تمام تر مشکلات اسی لیے ہیں کہ ہماری تربیت نہیں ہوئی ہے ۔ اور ہم خدا کی پسندیدہ تربیت اور اسلام کے پرچم تلے جمع نہیں ہوئے ہیں ۔ در اصل یہ تمام اختلافات و نزاع جو آپ دیکھ رہے ہیں اور ہماری قوم کے خلاف ہونے والی یہ تمام سازشیں یہ سب صرف اسی لے ہی کہ انسان کی نہ تو تربیت کی گئی ہے اور نہ تزکیہ و تہذیب نفس ۔

زمانہ طفولیت سے تربیت کا آغاز ۔

نوجوان جو عالَم ملکوت کی طرف پرواز کےلیے پر عزم اور باحوصلہ ہوتےہیں اور ان کے نفوس دوسروں سے زیادہ پاک ہوتے ہیں، اور معنوی تربیت کے مطابق زندگی نہ گزاریں تو وہ ہر قدم جو اپنی منزل کی طرف اٹھائیں گے اور ان کی زندگی کا آفتاب جتنا اپنے غروب کی طرف سفر کرتا رہے گا نہ صرف یہ کہ وہ ملکوت اعلیٰ سے دور ہوتے جائں گے ، بلکہ ان کے قلوب پر کدورتوں کی تہہ دبیز ہوتی جائے گی ۔ چنانچہ تربیت کو ابتداہی سے شروع کرنا چاہیے اور زمانہ طفولیت سے ان کو پاکیزہ انسانوں کی تربیت کے زیر سایہ اپنی زندگی کا آغاز کرنا چاہیے ۔ زمانہ طفولیت کے بعد بھی یہ نوجوان جہاں جائیں ایک تہذیب یافتہ مربی کے زیر تربیت رہیں ۔چونکہ انسان کی زندگی کے آخری لمحات تک تربیت کا محتاج ہے ۔

تعلیمی نصاب میں اخلاق کا سر فہرست ہونا۔

اگر کسی صاحب علم نے اپنا تزکیہ نہ کیا ہو ، اگر وہ اسلامی احکامات کا عالم کیوں نہ ہو،اگر چہ وہ علم توحید ہی کا عالم کیوں نہ ہو، اگر اس نے تہذیب نفس نہیں کی ہو تووہ خود اپنے لیے اپنے ملک ، ملت اور اسلام کےلئے نہ صرف یہ سودمند نہیں ، بلکہ الٹانقصان دہ ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلام اور اپنی قوم کی خدمت کریں اور استعماری طاقتوں اور ان سے وابستہ افراد کے غلام نہ ہو تو یونیوسٹی، مدارس اور ان دونوں تعلیمی اداروں سے منسلک افراد کے علمی نصاب میں اخلاقی تعلیمات اور تہذیب نفس کو مفکراسلام شہید مرتضیٰ مطہری  ؒجیسے افراد معاشرے کوپیش کرسکیں۔ اگر خدانخواستہ اس کے برخلاف عمل کیاجائے تو اس وقت اس نیک شخصیت کی متضاد شخصیات معاشرے کے حوالے کی جائیں گی اور وہ معاشرے کو برائی اور عوام کو غلامی کی طرف لے جائیں گے ۔   (امام خمنی   ؒ)

بچوں میں اثر قبول کرنے کی صلاحیت ۔

آغاز زندگی میں ایک طفل کا نفس ایک بے نقش و نگار صفحہ کی مانند جو ہر قسم کے نقش و نگار کو بہت آسانی سے قبول کرتاہے۔                               (شرح حدیث جنود و عقل و جہل)

ایک بے بنیاد اور غیر علمی کلام ۔

یہ بات جاننی چاہیے کہ انسان جب تک اس دنیا میں ہے وہ اس دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور اپنے ارادے و اختیار کے تحت زندگی گزاررہاہے ۔ چنانچہ وہ ہر بری عادت اور صفت رذیلہ کو صفت حمیدہ میں تبدیل کرسکتاہے ۔ یہ جو کہا جاتاہے کہ’’ فلاں عادت یا صفت فطری و طبیعی ہے ، اس میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے، یہ ایک بے بنیاد بات ہے کہ جس کی علمی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ۔( شرح حدیث جنودعقل و جہل)

انسان میں تربیت کی قابلیت ۔

اگر دنیا سے انبیاء ؑ کا وجود نکال دیاجائے تو ہم صرف ایسے حیوان ہوں گے کہ جس کےلیے یہی عالم طبیعت (دنیا)سب کچھ ہے اور ہمیں اس سے زیادہ ادراک نہیں ہوگا ۔ اگر ہمیں اس عالم میں لے جائیں اور ہمیں تیار کریں ہ جب ہم اس مادی سے اس عالم میں منتقل ہوں تو یہ سمجھیں کہ اس عالم کی زندگی اسی سعادتمند زندگی ہے ۔ تمام انبیاءؑ کی آمد کی غرض یہی تھی کہ بشر کی تربیت کیے جانےسے قابل اور دیگر تمام حیوانات سےمافوق ہے۔ (صحیفہ امام خمینی  ؒ)

خدائی علم کے اہداف ۔

علوم عقائد کو بھی آیت و نشان خدا ہونا چاہیے کہ جس کے حصو ل کا مقصد طلب حق کی جستجو اور تلاش ہو ، یعنی اگر ایک متکلم یا فیلسوف اپنی زندگی کو علم کلام یا فلسفہ کی تحصیل اوراس کی تمام اقسام میں تحقیق کےلئے صرف کرے لیکن اس کا یہ  علم اسے حق خواہ اور حق جو نہ بناسکے تو وہ علم خود ایک حجاب بلکہ حجاب اکبر بن جایے گا، نہ یہ علم الٰہی ہوگا اور نہ اس کی حکمت خدائی حکمت ، بلکہ کثرت سے بحث و مباحثے اور قال قیل کے بعد عالم طبیعت کی کثرت (خداسے دوری) میں ہی گرفتار ہوجائے اور روح کا رشتہ شجرہ خبیثہ سے مضبوط ہوتاجائے گا۔

کوئی حکیم اس وقت خدائی اور کوئی عالم اس وقت ربانی اور روحانی ہوتا ہے کہ جب اس کا علم خدائی اور ربانی ہو ۔ اگر کوئی علم ، توحید اورتجرد سے بحث کرے لیکن حق کی تلاش اور خداخواہی اسے اس بحث کی طرف مائل نہ کرسکے بکہ خود وہ علم اور اس کے نفس اور اس کے جلوؤں نے اسے یہ بحث و مباحثہ کرنے کی دعوت دی ہو تو نہ اس کا علم خدا کی نشانی ہے اور نہ اس کی حکمت خدائی ہےبلکہ نفسانیت و مادیت ہے۔

سود مند علم۔

خداوندعالم کی مخلوقات کےلطیف  نکات اور اسرار وجود کی باریکیوں میں تفکر کرنا سودمند علم ہے ۔(شرح  حدیث جنود عقل و جہل)

جہالت کےزیر سایہ ٹیکنالوجی ۔

یہ نئی ٹیکنالوجی ، آلات اور عقل کو حیران کرنے والی مصنوعات کہ جنہیں خداوندعالم نے موجودہ یورپ کو عطا کیا ہے ، اگر عقلی تقاضوں اور دین الٰہی کے پرچم تلے کنٹروول کی جاتیں تو پورا عالم ، نورانیت سے پر اور متوازن ہوجاتااور پوری دنیا باہمی اچھے روابط کے ذریعے سے اپنی سعادت کا انتظام کرتی لیکن افسوس کہ یہ اختراعی قوت ، جہالت ، نادانی ، شیطنت اور خود خواہی کے ز یر سایہ بنی نوع انسان کی سعادت اور مدینہ فاضلہ کے نظام کے خلاف عمل کررہی ہے اور جو چیز دنیا کی نورانیت او رروشنی کا باعث بننی چاہیے تھی وہ دنیا کو ظلمت و تاریکی کی گہرائیوں میں لے گئی ہے اور انسان کو بدبختی ، ذلت اور زحمت و تکلیف کی راہ پر لے جارہی ہے۔  (شرح حدیث جنود عقل و جہل)

خدائی علوم اور باطنی ہدایت

خداکی قسم اگر دینی اور خدائی علوم ہمیں راہ راست کی طرف ہدایت نہ کریں اور ہماری ظاہر و باطن کی اصلاح و تہذیب نہ کریں تو پست ترین کام ایسے علوم سے بہتر ہے ، چہ جائیکہ دنیوی کام کہ جن کا نتیجہ بھی جلدی نکلتا ہے اور ان کی برائیاں بھی کم ہیں۔ لیکن اگر دینی علوم کے ذریعہ سے دنیا کو تعمیر و آباد کیا جائے تو یہ در اصل دین فروشی ہے اور اس کا گناہ و عذاب دیگر تمام چیزوں سے بھی زیادہ ہے۔ (شرح حدیث جنود و عقل وجہل)                                 

معنویت کے بغیر علم۔

معنویت کے بغیر علم نہ تو آزادی ، ملت کی سعادت کا سامان فراہم کرسکتی ہے اور نہ ہی استقلال ۔ اسی طرح مادیت بھی تن تنہا ایک ملت کےلیے خوش بختی کا پیغام لانے سے قاصر ہے۔ یہ تمام چیزیں معونیت ہی کے زیر سایہ سعادت تک پہنچ سکتی ہیں۔ اسی لیےمعنویت بہت اہم امور سے سے تعلق رکھتی ہے ۔ آپ معنویت کو حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ تنہا علم بھی انسان کو فائدہ ہیں پہنچاسکتا ، علم اسی وقت حقیقی علم ہوگا کہ جب وہ معنویت کے ہمراہ ہو۔ ادب بھی تن تنہا سود بخش نہیں ادب اسی وقت کارگر ہے کہ جب وہ معنویت کے زیر سایہ ہو۔ یہ معنویت ہی ہےکہ جو بشریت کی تمام سعادت کا بیمہ کرتی ہے ۔ چنانچہ آپ کو چاہیے کہ معنویت کے حصول کے لیے کوشش کریں۔ تحصیل علم کے ساتھ ساتھ معنویت کو بھی حاصل کریں ۔ ہماری یونیورسٹیوں ، مکتب اور دینی مدارس کو چاہیے کہ وہ (اپنے حول و نصاب میں)معنویت و روحانیت پیدا کریں تاکہ وہ ان شاءاللہ سعادتمند ہوسکیں ۔  (صحیفہ امام خمینی   ؒ)

تہذیب نفس کے بغیر علم کا نقصان۔

اگر کوئی صاحب علم ہے لیکن اس کا علم تہذیب اخلاق اور روحانی تربیت کے ہمراہ نہ ہو تو ایسے علم و دانش کا نقصان و ضرر کسی ملک و ملت کےلیے جاہلوں سے نقصانات سےزیادہ ہوگا۔ایسا علم ایک ایسا اسلحہ بن جاتا ہے کہ جس کے ذریعہ ایک ملک کو نابود کیا جاسکتا ہے۔  

اسلام میں مادی علوم کا ہدف ۔

مغربی اور اسلامی یونیورسٹیوں میں بنیادی فرق ان کے نظام تعلیم اور نصاب میں ہوناچاہیےکہ جسے اسلام نے یونیورسٹیوں کےلیے پیش کیا ہے ۔مغربی یونیورسٹیاں خواہ کسی بھی علمی مرتبے تک پہنچ جائیں وہ طبیعت و فطرت کو سمجھ تو سکتی ہے لیکن اسے مہار نہیں کرسکتیں ۔ اسلام طبیعی اور مادیت سے مربوط علوم پر جداگانہ نظر نہیں رکھتا ہے ۔ تمام طبیعی او ر مادی علوم خواہ کسی بھی مرتبے تک پہنچ جائیں تب بھی وہ مقام حاصل نہیں کرسکتے کہ جو اسلام کو مطلوب ہے ۔ اسلام فطرت کو حقیقت کے لیے مہار کرتاہے اور تمام چیزوں کو وحدت اور توحید کی طرف لے جاتاہے ۔ وہ تمام علوم کہ جن کا آپ ذکر کرتے ہیں۔اوربیرونی ممالک کی یونیورسٹیاں بھی ان کا تذکرہ کرتی  ہیں تعریف کے قابل ہیں لیکن یہ سب کتاب عالم کا ایک ورق ہے اور وہ  بھی دیگر اوراق سے معمولی سے ورق ۔ عالم اپنے خیر  مطلق کے مبداء و آغاز سے لے کر انجام تک ایک ایسا موجود ہے کہ اس کا طبیعی موجودات ، خدائی موجودات کے مقابلہ میں بہت پست ہیں۔ اسلام اوردیگر مکاتب فکر کے درمیان میں توحیدی ادیان و مکاتب کی بات نہیں کررہاہوں، توحیدی مکتب اور دیگر مکاتب کے درمیان کہ جن میں سب سے عظیم مکتب اسلام ہے ، فرق یہ ہے کہ اسلام اسی طبیعت و مادیت کےساتھ ایک اور معنی کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے، اسی علم طب میں ایک اور معنی اسلام کے پیش نظر ہے ، علم جیومیٹری میں اسلام ایک اور باب میں کھولنا چاہتا ہے ، علم نحو میں اسلام کی خواہش ہے کہ اسے ایک اور پہلو سے دیکھا جائے ۔

اگر کوئی قرآن شریف میں اس معنی کا مطالعہ کرے تو وہ دیکھے گا کہ قرآن مکیں ان تمام مادی و طبیعی علوم کے روحانی پہلوؤں کو بینا کیا گیا ہے کہ کہ فقط ان کے مادی پہلوؤں کو   وہ تمام امور کہ جن کی جانب قرآن نے تعقل و تفکر کی دعوت دی ہے اور یہ جو امر دیا گیا ہے کہ تمام محسوسات کو تعقل کی نگاہ سے دیکھئے ، یہ عقل و عقلانیت کا عالم ایک ایسا عالم ہے جو اصالت و حقیقت رکھتا ہے جبکہ یہ طبیعت و مادیت عالم صرف ایک سایہ اور ہم جب تک مادیت میں ہے عالم کے اس پست ترین سایہ کو ہی دیکھتے اور اسے حقیقت سمجھتے ہیں۔

وہ چیز جو اسلام کے پیش نظر ہے اوروہ ان مادی اور غیر مادی تمام علوم سےخواہاں ہے جس بات کا خواہاں ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب خدائی علوم سے کنٹرول کیے جائیں اور ان سب کی بازگشت خدا ہی کی طرف ہو ۔ یعنی ہر علم کا خدائی اور روحانی پہلو مدنظر رکھا جائے ۔ اس طرح کہ اگر انسان مااور دیت کو دیکھے تو اسے خدا ہی نظر آئے ، اگر تمام موجودات پر نظر کرے تو اس میں خدائی جلوؤں کا مشاہدہ کرے اور اگر مادے کو دیکھے تو اس میں خدا کی نشانیوں کو دیکھے ۔ اسلام اسی لیے آیا ہے کہ تمام موجودات کو خدا اور تمامادی علوم کو خدائی علوم کی طرف پلٹادے اور یونیورسٹیوں سے بھی یہی چیز مطلوب ہے۔

اخلاقی اور روحانی تربیت کے ساتھ صحیح تعلیم کا حصول

علمی مواد کو اچھا بنائے اور اس بات کی کوشش کریں کہ آپ کی طرف سے دی جانے والی تعلیم صحیح ہو۔ تعلیم کو مفید اور کارآمد ہونا چاہیے۔تعلیم اسی وقت سود مند ہوگی کہ جب وہ تزکیہ ، روحانی اور اخلاقی تربیت کے ہمراہ ہو۔ تمام یونیورسٹیاں اور دیگر تمام علمی مراکز  میں خواہ جہاں علماتدریس کرتے ہوں یا دانشمند حضرات ، ان تمام شخصیات کو ایسا ہونا چاہیے کہ یہ دینی مدارس اور یونیورسٹی کے طالب علموں کی اخلاقی تربیت اور ان کے  نفوس کا تزکیہ کرسکیں۔ جس طرح وہ تحصیل علم میں مصروف ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ وہ تزکیہ نفس بھی کریں۔ (صحیفہ امام خمینیؒ)                                   

با مقصد تحصیل علم کی ضرورت

بہترین اور سود مند جہت وہ ہے کہ جس کی طرف قدم بڑھایا جائے اور قرآن نے اسی کو بیان کیا ہے (اقرأ باسم ربک الذی خلق ) پڑھو لیکن سرسری انداز سے نہیں ، سیکھو مگرمعمولی انداز سے نہیں ۔

علم کیا ہے ؟

آج کے اس پیشرفتہ ترین دور میں بھی شعبہ تعلیم سے مربوط بعض افراد کے لئے کچھ علمی مسائل معمہ بنے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ روشن فکری کے نام سے دین سے دور ہوتے جارہے ہیں ـ ان کے خیال میں دین کے اندر جدید مسائل کا حل موجود نہیں ـ وہ کچھ سائنسی معلومات اور ریاضی فارمولے ازبر کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو بہت بڑے دانشمند ہیں اور دینی تعلیمات حاصل کرنے سے ہم بے نیاز ہیں ـ وہ پوری صراحت سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دین سے دور رہنا ہی انسان کی  ترقی اور تکاملی کا راز ہے۔

 اس بے بنیاد فکر کے اسباب وعوامل تو بہت زیادہ ہیں لیکن غور کیا جائے تو اسے نسل جدید، جوان اور نوجوانوں کے ذہنوں میں پروان چڑھا کر مستحکم کرنے میں حقائق سے نابلد بعض  مغربی دانشوروں کا بڑا کردار دکھائی دیتا ہے ،انہوں نے تعلیم یافتہ طبقے کو طرح طرح کے شبھات کے ذریعے دین سے بیزار کرنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں صرف کی ہے جس کا ایک بارز نمونہ یہ ہے کہ مغربی بعض نام نہاد مفکرین نے ایک مستقل نظرئیے کے طور پر علمی دنیا میں یہ بات پیش کردی کہ علم اور دین میں تعارض ہے ـ مفہوم علم اور دین میں کوئی مطابقت نہیں ـ علم اور دین کا محتوی آپس میں ٹکراتا ہے ـ دین کا دائرہ تنگ ہے جبکہ علم کے دائرے میں وسعت پائی جاتی ہےـ دیندار لوگ تنگ نظر جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس بے دین افراد روشن فکر اور اچھے خیالات کے مالک ہوتے ہیں وغیرہ ۔انہوں نے مختلف شکلوں میں اس مسئلے کو( تعارض دین  وعلم) بیان کیا ہے اس مختصر  کالم میں قارئین کرام کو فقط اس شبھے کی طرف متوجہ کرانا مقصود ہے امید ہے کہ تحقیق کا شغف رکھنے والے دانشوران اس پر ریسرچ کرنے کی زحمت کریں گے ـ اس شبھے کی پیدائش کا تاریخچہ دقیق معلوم نہیں لیکن یہ بدیہی ہے کہ اس کا تعلق جدید شبہات سے ہرگز نہیں، بلکہ بہت عرصہ پہلے یہ شبہہ دانشمندوں کی توجہ کا محور قرار پایا ہے ـ بعض اسلامی مفکرین نے اس پر تحقیق کرکے مقالے اور مستقل کتابیں لکھ ڈالی ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں اور مقالہ جات میں تمام زوایا سے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے، بطور نمونہ مفکر اسلام آیت اللہ مصباح یزدی نے رابطہ علم ودین کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے ،جس میں منطقی ترتیب کی پوری طرح رعایت کرتے ہوئے انہوں نے انتہائی حسین انداز میں مسئلہ تعارض علم ودین کی وضاحت کی ہے، اُس کتاب میں آیت اللہ مصباح نے مغربی اور اسلامی مفکرین کے نظریات کا تقابلی جائزہ لیا ہے اور استدلال کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ علم اور دین میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ان میں کاملاً مطابقت پائی جاتی ہے ،ان دونوں میں دوستی اور محبت ہے نہ تعاند اور دشمنی ـ مسئلہ تعارض علم ودین  اور مسئلہ رابطہ علم و دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم اور دین کی تعریف پر توجہ کریں آیت اللہ مصباح یزدی نے رابطہ علم ودین نامی اپنی کتاب میں دین کی سات اور علم کی نو تعریف ذکر کیا ہے جو بالترتیب ہم یہاں نقل کرتے ہیں اور کچھ قابل فکر سوالات لکھ کر قارئین کرام کو ان پر غور کرکے جوابات تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ـ

                                                                                  علم کی تعریفیں       

۱ـ۔علم یعنی اعتقاد جزمی 

۲ـ ۔علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت 

۳۔ـ علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت حصولی 

۴ـ ۔علم یعنی واقع سے مطابقت رکھنے والی شناخت حصولی کلی 

۵ـ ۔علم یعنی معرفت حصولی کلی اور اس سے مناسبت رکھنے والی عملی دستورات 

۶ـ ۔علم یعنی شناخت حصولی کلی حقیقی

۷ـ ۔علم یعنی شناخت حصولی تجربی 

۸ـ ۔علم یعنی مادی ظواہر کی شناخت 

۹ـ۔ علم یعنی مجموعہ مسائل کی معرفت

دین کی تعریفیں:

ـ ۱۔احساس تعلق ووابستگی کا نام دین ہے 

۲ـ۔امر قدسی پر اعتقاد رکھنے کو دین کہا جاتا ہے 

۳ـ ۔دین یعنی ماوراء طبیعت پر عقیدہ رکھنا اور اس سے مربوط رہنا 

ـ ۴۔دین یعنی رفتاری باور اور ارزشوں کا مجموعہ

۵ـ ۔دین سے مراد محتوی کتاب وسنت ہے 

۶ـ۔ دین الہی حق

۷ـ سعادت پر معطوف اعتقادات

ذیلی سوالات قابل غور ہیں

الف: کیا مفہوم ومحتوی علم ودین میں تعارض ہے؟

ب: علم اور دین کے درمیان نسب اربعہ میں سے کونسی نسبت پائی جاتی ہے؟

ج: کن عوامل کی بنیاد پر مغربی  مفکرین سے متاثر ہوکر بعض اسلامی مفکرین علم اور دین میں تعارض ہونے کے قائل ہوئے؟ 

د: اسلامی مفکرین نے اس شبھے کے جواب میں کیا راہ حل پیش ہے؟ نیز اس شبھے کے نقصانات کیا کیا ہیں؟

تعلیم کا نقطہ آغاز کیاہو؟

روایات میں ہے کہ فرشتے اپنے پروں کو آپ کے قدموں کے نیچے بچھاتے ہیں اور جس علاقے سے بھی آپ گزرجائیں گے وہاں پر موجود قبرستانوں کے مکینوں کے عذاب بھی برطرف ہوجائیں گے ۔

دینی طالب علم ہونے کے حوالے سے اپنا ظاہری حلیہ پتہ ہونا چاہیے جب خدا نے آپ کو یہ بلند مقام عطاکردیاتو بلند مقام حاصل کرنے والے کےکچھ مشکلات ہوتے ہیں اور جب انسان کوئی درس حاصل کرلیتا ہے تو اس کو برقرار رکھنے کے لیے کس قدر محنت کرنا ہوتی ہے۔

ایک دفعہ اگر کوئی ٹورامن جیت لے تو دوسری مرتبہ اسے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے کہ اس سےوہ کپ چھین نہ جائے ۔ سب سے پہلے ہرایک طالب علم کو ایک خصوصیت پیدا کرنا پڑے گی اور وہ ہے فقط اخلاص ، قربۃ الی اللہ علم دین کو حاصل کرناپڑے گا۔ نیت کو بلکل خالص کرناپڑے گا۔ بے ادب طریقے سے علم دین حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

اصل ہدف دین حنیفِ اسلام کی خدمت ہوناچاہیے۔ اگر یہ ہدف اور مقصد دماغ سے نکل جائے  ۔۔۔۔۔جاری ہیں۔۔

 

۲۳ نوامبر ۲۰ ، ۱۴:۰۰
البیان فاؤنڈیشن بلتستان