ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ترویج علوم آل محمد صلواۃ اللہ علیھم اجمعین

ادارہ مصباح الھدیٰ بلتستان

اغراض و مقاصد
علاقے میں دینیات سینٹرز کاقیام،مختلف شہروں، قصبوں میں لائبری قائم کرنا، سکولوں کے ایام تعطیلات میں دین شناسی شارٹ کورس کا انعقاد، سکول وکالجز میں معارف اسلامی کے لیے اساتید کا تقرر، اساتیدکی تربیت کرنا تاکہ وہ بہتر انداز میں بچوں کی تربیت کرسکے، مغربی تہزیب جو سکولوں میں رائج کرنے کی انتھک کوششیں ہورہی ہیں ان کا مقابلہ کرنا۔ اور اسلامی تہذیب معاشرہ و سکول و کالجوں میں رائج کرنا۔
ہم سب پر امر باالمعروف ونہی از منکر واجب ہے۔
آپ تمام سے دست بستہ عرض ہے کہ اس کارخیر میں ہمارے ساتھ تعاون فرماکر ہدف تک پہنچنے میں ہمارے ساتھ دیں

طبقه بندی موضوعی

خلاصہ: مجلس اول

 

استاد محترم سید جواد نقوی حفظہ اللہ

 

ماہ محرم حرمت و احترام کا مہینہ ہے اور اس کا احترام قبل اسلام بھی عرب میں تھا۔شہادت امام حسین علیہ السلام نے اس حرمت کو دگنا کر دیا ہے۔

حرمت محرم کا تقاضا ہے کہ یہ ماہ صرف اور صرف امام حسین سے منسوب ہو۔ اگر کسی کو توفیق عزاء نہیں بھی ہے تو کم از کم اس ماہ کی حرمت کا خیال ضرور رکھے۔

اس ماہ محرم میں ایک مناسبت 14 اگست یوم آزادی ہے اور خدشہ ہے کہ خارجی اور ناصبی اس کو بہانہ بنا کر اہل بیت اور ماہ محرم کی حرمت شکنی کریں گے۔

آزادی ماہ محرم سے مناسبت رکھنے والا موضوع ہے اور خطباء و واعظین اس حقیقت کو بیان کریں کہ امام حسین ابو الاحرار ہیں۔

ہر آزادی کی تاریخ خواہ مشرقی ہو یا مغربی اس کا تعلق اور اس کی بنیادیں امام حسین کی روح نظر آ جائیں گی۔

 

علامہ اقبال نے تصور آزادی امام حسین علیہ السلام سے لیا ہے اور فرمایا کہ میرا راستہ شبیر علیہ السلام کا راستہ ہے۔

امام خمینی نے بھی فرمایا کہ ہم نے طاغوت وقت امریکہ و مغرب سے آزادی امام حسین کی وجہ سے حاصل کی ہے۔

پاکستان کو اپنی آزادی کی تکمیل راہ امام حسین اپنا کر کرکرنی چاہیے آئے لیکن اس سال یوم آزادی جشن کے عنوان سے منا کر محرم کی بے حرمتی نہ کریں۔

امام حسین علیہ السلام اسلام کی میراث ہیں لیکن سب کو یہ ایام برپا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی اور یہ توفیق مومنین و شیعان علی کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔

پاکستان میں جدید ناصبیت کا طریقہ یہ ہے کہ دشمنان اہل بیت کی تعریف کرتے ہیں یہ بنو امیہ کا وطیرہ ہے۔پاکستان میں عرس بہت رائج چیز ہے،اسکا مطلب میلہ نہیں بلکہ شادی ہے اور منانے والے اسی مراد سے مناتے ہیں،دلہن کی طرح سجتے ہیں،ناچ گانا ہوتا ہے اور بالکل شادی والا ماحول ہوتا ہے۔

ہر ایک کو حق ہے کہ اپنے مقدسات کے ایام منائیں لیکن محرم و اہل بیت کی بے حرمتی نہ کریں۔

حکومت تاثر دیتی ہے کہ وہ محرم کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن بانیان پر FIR کاٹ کر اور عزاداروں کو جیل میں ڈالنے سے یہ تاثر نہیں ملتا۔حکومت کو چایے کہ میڈیا کو پابند کرے کہ ان  ایام میں فقط ذکر اہل بہت ہو۔

 

متولیان محرم کا فریضہ:

محرم کی حرمت کا پہلا فریضہ متولیان محرم کا بنتا ہے۔

متولیان محرم کے تین گروپ ہیں۔

(الف) بانیان مجالس (ب) واعظین،خطباء،شعراء،علماء (د) شرکاء مجلس و عزاء

 

اہل ممبر کا فریضہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا پیغام موجودہ نسل اور آنے والی نسل کو پہنچائیں لیکن سب سے زیادہ بے حرمتی محرم کی اہل ممبرکی طرف سے ہوتی ہے۔ اکثر اہل ممبر دس دنوں میں سینکڑوں مجالس پڑھتے ہیں لیکن 10 منٹ کا بھی پیغام امام حسین علیہ السلام نہیں پہنچاتے بلکہ دوسرے مسالک کے مقدسات بلکہ اپنے مسلک کے علماء و فقہاء کی بے حرمتی کرتے ہیں کی کیونکہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لیے انتہائی معیوب الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

بانیان مجالس خطباء سے تقاضا کریں کہ 5 منٹ کم از کم قرآن ممبر پر پڑھیں اور تعلیم دیں۔ یہ کم از کم معیار ہونا چاہیے۔

شرکاء کو چاہیے کہ یہ بے حرمتی روکیں کیونکہ گستاخ کی گستاخی کو برداشت کرنا بڑی بے حرمتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام میں ایسی تڑپ کہ کوئی چیز اس کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔

لیکن ہر صاحب فہم آدمی جانتا ہے کہ عزاداری آج کل محض تجارت بن گئی ہے بھاری فیسیں اور باقاعدہ پیکج ہوتے ہیں۔

عاشورہ مکتب ہے لیکن تاجروں نے اس کو مکسب بنا دیا ہے۔ جہاں ہر مومن اور انسان کو بیدار کیا جائے وہ مکتب ہے  لیکن جہان اکائونٹ بھرنا مقصد ہو وہ مکسب ہے۔

حرمت محرم کا تقاضا ہے کہ مجالس کا ایسا موحول کیا جائے کہ کسی کو آنے میں دشواری نہ ہو۔

22 کروڑ عوام کو احساس دلائو(حسین سب کا ہے۔)

یہ متولیان کی ذمہ داری ہے۔

 

امام حسین علیہ السلام کے قیام کی تفسیر امام حسین علیہ السلام کی زبان سے:

 جو بیان کر رہے تھے اس کا آغاز مدینہ میں جب دربار میں آپ علیہ السلام کو بلایا وہاں سے کیا تھا اور اب دیگر مراحل کا ذکر کر کے جیسا کہ مدینہ سے مکہ کے سفر میں جو امام نے ملاقاتیں کی اور بیان فرمایا اس کا ذکر ہوا تھا اور اب ہماری گفتگو مکہ سے باہر کی منزل تک پہنچی ہے۔

مکہ سے باہر پہلی منزل تنعیم تھی۔

یہاں آپ علیہ السلام کی ملاقات یمن سے آنے والے ایک کاروان سے ہوئی جو یزیدی گورنر یمن کی طرف سے احوال لے کر دمشق جا رہا تھا یزید کی طرف۔

ان احوال میں ایک ورثہ یعنی کپڑا یا کپڑا رگڑنے والا سامان اور دوسرا زیورات تھے۔

اس زمانے میں یمن کپڑے سازی کی صفت میں پورے عرب میں مشہور تھا۔

امام حسین علیہ السلام نے کاروان روک کر سامان سارا لے لیا لیکن transporter یعنی جانوروں کے مالکوں کو کہا کہ آگر آپ ہمارے ساتھ یہ سامان لے کر عراق تک چلے تو طے شدہ کرایا آپ کو دیں گے اور کوئی تکلیف نہیں ہو گی اور اگر ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہتے تو یہاں تک کا کرایہ آپ کو ادا کرتے ہیں،آپ کو اختیار ہیں۔

اس واقعہ کے بارے میں تاریخ میں دو رائے ہیں۔

کچھ شیعہ علماء اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کی دو علتیں بیان کرتے ہیں۔

ایک دلیل یا علت اس کی یہ یے کہ یہ واقعہ اچھا نہیں لگتا اور دوسرا یہ کہ شیخ مفید نے ذکر نہیں کیا ہے۔

حالانکہ شیخ مفید نے ذکر نہیں کیا تو نفی بھی نہیں کی اور لکھا ہے کہ تنعیم ہر ایک کاروان ملا اور ان سے امام نے اونٹ اور خچر کرائے پر لیا اور سامان لینے کا ذکر شیخ مفید نے نہیں کیا۔

اگر قول یہ درست ہے کہ حکومتی سامان لے لیا تو یہ عمل ٹھیک کیونکہ یہ امام معصوم نے کیا ہے۔

یہ مومن کا solid جواب ہے لیکن محقق کو دلیل کے ساتھ کھولنا ہوتا یے۔

امام حسین علیہ السلام کا قیام شروع سے زیر سوال ہے کہ بیعت کیوں نہیں کی؟ مکہ سے کیوں نکلے؟ حج کو کیوں ترک کیا؟ لہذا کیوں کا جواب ہونا چاہیے۔

امام حسین علیہ السلام کا یہ عمل بالکل قرآن و سنت کے مطابق ہے اور تاریخ کے اندر جاری شریعت کے مطابق ہے اور عقلاً اور شرعاً کوئی سوال نہیں اٹھتا۔

سوشل میڈیا پر جو لوگ بالکل علم نہ رکھنے کے باوجود ہر بات میں رائے دیتے ہیں یہ فخور ہیں یعنی کھوکھلے جو ڈھینگیں زیادہ مارتے ہیں لیکن علم نہیں رکھتے ہیں۔اگر نہیں معلوم تو بتا دو کہ نہیں جانتا ہوں۔

اس باب کو اصلاح میں مصادرہ کہتے ہیں جیسے صدر نکلنے کو بھی کہتے ہیں اور آگے کو بھی کہتے ہیں مثلاً فرمان صادر کر دیا۔

زبردستی کوئی چیز نکلانے کو مصادرہ کہتے ہیں عربی میں اور فقہ میں اس کا پورا باب ہے۔

بہت سے اموال مصادرہ ہونے چاہیے اور یہ لوٹ مال نہیں ہیں۔ مصادرہ حکم قرآن اور فعل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ کون سے اموال مصادرہ کہے جائیں ان کا فقہ میں نام ہے اور قرآن میں بھی۔

امام حسین علیہ السلام نے تنعیم پر جو مال لیا جو مصادرہ تھا۔یہ مال ان کا ذاتی نہیں تھا بلکہ حکومت کا تھا۔ یہ موضوع مزید آگے کھولیں گے اور وضاحت ہو گی۔۔

 

ناشر : البیان فاؤنڈیشن بلتستان